1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سطح پر سزائے موت دینے کے واقعات میں کمی، چین ہنوز آگے

10 اپریل 2019

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں سزائے موت دینے کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس ایسی سزاؤں پر عمل درآمد کی مجموعی سالانہ تعداد پچھلی ایک دہائی کی سب سے کم تعداد تھی۔

Japan Demonstration gegen die Todestrafe in Tokyo
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka

ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا کے بیس ممالک میں690 افراد کو پھانسی دی گئی۔ یہ تعداد 2017ء کے مقابلے میں 31 فیصد کم تھی۔ 2017ء میں مجموعی طور پر کل 993 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کومی نائیڈو کے مطابق، ’’سزائے موت پر عمل درآمد کے واقعات میں یہ ڈرامائی کمی ظاہر کرتی ہے کہ جن ممالک میں موت کی سزائیں دینے سے متعلق بہت سخت پالیسیوں پر عمل کیا جاتا ہے، وہاں بھی اس حوالے سے سوچ بدل رہی ہے۔‘‘

ایمنسٹی کے مطابق عراق، ایران، پاکستان اور صومالیہ کا شمار ان ممالک میں ہے جہاں سزائے موت کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ دوسری جانب اسی رپورٹ کے مرتب کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنگاپور، بیلا روس، جنوبی سوڈان، جاپان اور امریکا نے ایک مرتبہ پھر پھانسی دیے جانے کے قانون کو لاگو کر دیا ہے۔

سری لنکا: پھانسی دینے کے لیے ’جلاد‘ درکار ہیں

انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پھانسی کی سزا دیے جانے والے واقعات کے حوالے سے بالکل درست معلومات کی فراہمی نہ ہونے کے باعث یہ عین ممکن ہے کہ در حقییقت زیادہ افراد کو سزا موت پر عمل درآمد کیا  گیا ہو۔
 چین آج بھی سزائے موت دینے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر  ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہر سال اس ملک میں ہزاروں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے اور ہزاروں ہی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جاتا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین سزائے موت کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کرتا اور یہ معلومات خفیہ رکھی جاتی ہے۔ چین کے بعد سب سے سزائے مرت دینے والے ممالک میں ایران، سعودی عرب، ویت نام اورعراق شامل ہیں۔ 

دنیا بھر میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی

01:45

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں