عالمی سطح پر ’پولیس مین‘ کا کردار ادا نہیں کریں گے، ٹرمپ
27 دسمبر 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرسمس کے موقع پر عراق میں امریکی فوجی اڈوں کا ایک مختصر دورہ کیا۔ انہوں نے اس موقع پر انہوں نے عراقی حکام سے ملاقات نہیں کی۔ تاہم انہوں نے اس دورے کے دوران عالمی برداری کو ایک واضح پیغام دیا۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عراقی دورے کے دوران کہا کہ امریکا عالمی سطح پر پولیس میں کا کردار مزید ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے بقول امریکا اب ایسے ممالک کو ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دینا چاہتا، جو اپنے تحفظ کے لیے امریکا اور امریکی افواج کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کوئی انصاف نہیں کہ امریکا کو ہی سارا بوجھ اٹھانا پڑے۔
ٹرمپ نے اس دوران کہا کہ ان کا عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے اپنے فیصلے کا دفاع بھی کیا، ’’مطلب یہ نہیں تھا کہ شام میں امریکی افواج غیر معینہ مدت کے لیےتعینات رہیں گی۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عسکری میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر لی گئی ہیں۔‘‘
ٹرمپ سے قبل سابق صدور جارج بش اور باراک اوباما بھی اپنے اپنے دور میں عراق کے اچانک دورے کر چکے ہیں۔ اس دورے میں ٹرمپ کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور انتظامیہ کے چند دیگر اہلکار بھی تھے۔ ان کا جہاز ’ایئر فورس ون‘ مستقل جنگی طیاروں کے نگرانی میں تھا۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکا کی اپنی پالیسی کے تحت بین الاقوامی عسکری اتحادوں سے الگ ہونے کے فیصلے کا بھی دفاع کیا، ’’ہم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم ایسے ممالک میں بھی ہیں، جن کے بارے میں شاید عوام سے سنا بھی نہ ہو۔ سچ میں، یہ مضحکہ خیز ہے‘‘۔
عراق سے واپسی پر ٹرمپ جرمنی کے رامشٹائن کے فوجی ہوائی اڈے پر بھی رکے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ایئرفورس ون جمعرات کی علی الصبح رامشٹائن پر اترا۔ ٹرمپ اور میلانیا نے اس موقع پر وہاں اکھٹے ہو جانے والے فوجیوں سے مصافحہ کیا اور تصاویر بھی بنوائیں۔ رامشٹائن کا شمار یورپ میں امریکی دستوں کی اہم ترین چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔
بدلتی ہوئی عالمی سياست، ٹرمپ کی نئی افغان پاليسی اور پاکستان