دو سے چار اکتوبر تک جاری رہنے والی اس تین روزہ بین الاقوامی نمائش کا مقصد پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لانا اور سیاحت کے فروغ کے ذریعے معیشت کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
اشتہار
ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان ٹریول مارٹ نامی بین الاقوامی نمائش کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی اولین نمائش یعنی ٹریول مارٹ 2017 میں دس ممالک سے تعلق رکھنے والی 145 کمپنیاں شریک ہوئی تھیں۔ جبکہ اس سال 20 ممالک کی 200 سے زائد کمپنیاں اس مارٹ میں شریک ہیں۔
ٹریول مارٹ 2018 میں چین، سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملیشیا، سری لنکا، ترکی، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بنگلادیش، ویتنام، ایران، کویت، قطر اور بحرین سمیت کئی دیگر ممالک کے سفارت کار اپنے ٹورازم بورڈز اور ٹورازم کمپنیوں کے ساتھ شریک ہیں۔
’پاکستان ایک ایسی پراڈکٹ ہے جس کی مناسب مارکیٹنگ اور برانڈنگ نہیں ہوئی‘تصویر: DW/U. Fatima
اس سہ روز ہ کانفرنس اور نمائش کی افتتاحی تقریب میں صوبائی وزیر برائے سیاحت سید سردار علی شاہ، اور ایم کیو ایم کے رہنماء فاروق ستار سمیت سیاحت کے شعبہ سے منسلک قومی اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی اور اس تقریب کو سیاحت کے فروغ کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیا۔ تقریب کے افتتاح کےموقع پر صوبائی وزیر سیاحت سردار علی شاہ کا کہنا تھا، ’’اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ میں سیاحت کو فروغ ملا ہے۔ دہشتگردی سے سیاحت متاثر ہوئی تھی مگر اب صورت حال بہتر ہے تاہم اب بھی مزید کام کی گنجائش باقی ہے۔‘‘
20 ممالک کی 200 سے زائد کمپنیاں پاکستن ٹریول مارٹ 2018 میں شریک ہیں۔تصویر: DW/U. Fatima
نمائش میں ایم کیو ایم رہنماء فاروق ستار بھی موجود تھے جن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس طرح کی کوششوں کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے جو معیشیت کو مضبوط کریں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ایونٹ میں جس طرح بین الاقوامی مندوبین کی شرکت یقینی بنی ہے اس طرح پاکستان کی بہتر عکاسی ہوسکے گی۔
پاکستان میں یہ نمائش معنقد کرنے والی کمپنی لینڈ مارک کمیونیکیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر علی نقی ہمدانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس تقریب کو دیگر ممالک کے ساتھ بہتر سماجی و معاشی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بھی ایک سنگ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان کے تمام صوبائی ٹورازم بورڈز اس نمائش میں شامل ہیں۔ ٹورزم کے حوالے سے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں، چاہے وہ بیرون ملک سے ہوں یا پاکستان سے، وہ سب کراچی میں ہیں اور مزید دو دن تک موجود رہیں گے ۔ پاکستان میں سیاحت، پاکستان کی سیاحت اور پاکستان کے ایک سافٹ امیج کو دنیا بھر میں اجاگر کرنےکی کاوش ہو رہی ہے اور آج اس کاوش کو ہم بہت حد تک کامیاب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اس وقت سیاحت کے فروغ کے حوالےسے پاکستان میں پرائیوٹ کے علاوہ حکومتی سیکٹر بھی نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے۔تصویر: DW/U. Fatima
علی ہمدانی کے مطابق پاکستان کی سیاحت میں جو اب تک سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے وہ ہے اس ملک کے حوالے سے دنیا کے سامنے اس کا تصور، ’’پاکستان ایک ایسی پراڈکٹ ہے جس کی مناسب طریقے سے مارکیٹنگ اور برانڈنگ نہیں ہوئی۔ پراڈکٹ کے اندر کوئی خامی نہیں ہے۔ جو لوگ پاکستان سیاحت کے لیے آتے ہوں وہ خوش ہو کر یہاں سے جاتے ہیں۔ وہ یہاں دوبارہ آنا چاہتے ہیں اور یہاں کے کلچر، یہاں کے لینڈ اسکیپ، یہاں کی تہذیبوں اور ثقافتوں سے روشناس ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ملک وسائل سے نہایت مالا مال ہے لیکن جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے بیرون ملک پاکستان کا امیج، اس ملک کے بارے میں خیالات۔ یہاں پر سیاح آتے ہیں چاہے وہ یورپ سے ہوں یا امریکا سے یا فارس سے، ہم ان کو پاکستان کی کہانی سنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہم نے یہ کاوش کی ہے کہ وہاں سے لوگوں کو ہم بلائیں اور ان کو بتائیں اور دکھائیں کہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے۔‘‘
ڈاچی میں پاکستانی ثقافت کے رنگوں کی بہار
پاکستان کے ثقافتی دارالخلافے لاہور میں ڈاچی آرٹس اینڈ کرافٹس نمائش گیارہ نومبر کو شروع ہوئی اور تین روز تک جاری رہنے کے بعد تیرہ نومبر کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔
تصویر: DW/A. Ali
’’ٹھٹہ کھڈونا‘‘ کا سٹال نمایاں
یہ اپنی نوعیت کی گیارہویں نمائش تھی۔ اس میں بھی پاک جرمن تعاون کے تحت چلنے والے ایک دستکاری منصوبے ’’ٹھٹہ کھڈونا‘‘ کا اسٹال نمایاں تھا، جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں کی نمائندگی کرنے والی رنگا رنگ گڑیائیں مرکزِ نگاہ رہیں۔
تصویر: DW/A. Ali
گيارہويں ڈاچی آرٹس اینڈ کرافٹس نمائش
اس بار ڈاچی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اس نمائش کا اہتمام شہر کے جدید علاقے ماڈل ٹاؤن کے قصرِ نور سینٹر میں کیا گیا تھا۔ ضلع اوکاڑہ کے ایک گاؤں ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا میں چلنے والے منصوبے ’’ٹھٹہ کھڈونا‘‘ کے اسٹال میں شائقین نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
تصویر: DW/A. Ali
ايک نادر موقع
نجی شعبے کی کوششوں سے اس ثقافتی اجتماع کا انعقاد ہر چھ ماہ بعد عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے شائقین کو ملک کے کونے کونے میں تخلیق کی جانے والی دستکاری مصنوعات کو قریب سے دیکھنے کا نادر موقع ملتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
پاکستان تنوع، رنگا رنگ اور بھرپور ثقافتی ورثے سے مالا مال
اس نمائش کی آرگنائزر عائشہ نورانی نے کہا کہ اس اجتماع کا ایک اہم مقصد نئی نسل کو اس بات سے بھی رُوشناس کروانا ہے کہ پاکستان متنوع، رنگا رنگ اور بھرپور ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
ہنرمندی کی منہ بولتی مثاليں
اس نمائش میں رکھی رنگا رنگ مصنوعات پاکستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنرمندوں کی قوتِ متخیلہ اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تصویر: DW/A. Ali
فنون کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ
شہری آبادی کو اس طرح کی نمائشوں کی وساطت سے ملک کے کونے کونے میں تخلیق ہونے والے فن پاروں کو دیکھنے اور اُن کی پذیرائی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سرپرستی ان فنون کو محفوظ رکھنے کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
ملک کے مختلف خطوں کی اشياء
اس نمائش میں رکھی مصنوعات میں ملک کے مختلف خطّوں کی نمائندگی کرنے والے ملبوسات، زیورات، ظروف اور فرنیچر کے ساتھ ساتھ کشیدہ کاری، مصوری اور خطاطی کے نمونے بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/A. Ali
رنگوں کی بہار
گیارہویں ڈاچی آرٹس اینڈ کرافٹس نمائش میں درجنوں سٹال لگائے گئے تھے، جہاں رنگوں کی ایک بہار دُور دُور سے آنے والے شائقین کی منتظر تھی۔
تصویر: DW/A. Ali
ملکی اور غیر ملکی شائقین
ملکی اور غیر ملکی شائقین کی کثیر تعداد اس نمائش کو دیکھنے کے لیے پہنچی، جس نے بڑے پیمانے پر خریداری کرتے ہوئے دستکاروں کی ہنر مندی اور مہارت کی داد دی۔
تصویر: DW/A. Ali
نمک سے بنے ہوئے طرح طرح کے فن پارے
پاکستان میں نمک کی کانیں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں، جہاں سے نکلنے والا نمک نہ صرف کھانے کے کام آتا ہے بلکہ نمک کی مدد سے طرح طرح کے فن پارے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ali
اونٹ کی کھال سے بنے دلکش لیمپ
ڈاچی نمائش میں ٹرک آرٹ کے شاہکار بھی رکھے گئے تھے، بانسوں سے بنے فوارے بھی اور اونٹ کی کھال سے بنے اس طرح کے دلکش لیمپ بھی۔
تصویر: DW/A. Ali
پتھر اور لکڑی کی دیدہ زیب مصنوعات
اس نمائش میں پتھر اور لکڑی سے تیار کردہ دیدہ زیب مصنوعات کے ساتھ ساتھ مٹی سے بنے ہوئے ظروف بھی رکھے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Ali
کئی بڑے نام شامل
اس نمائش کی افتتاحی تقریب میں شریک پاکستانی اسٹیج، ٹی وی اور فلم کی معروف شخصیت سہیل احمد نے اس امر کو سراہا کہ ڈاچی فاؤنڈیشن پاکستانی ثقافت کے خوبصورت رنگوں کو انتہائی خوبصورت انداز میں عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
روزگار کمانے کا بھی ایک نادر موقع
نمائش کنندگان نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ اس نمائش کے ذریعے اُنہیں اپنے ہاتھ سے بنے فن پاروں کو عوام کے سامنے پیش کرنے اور انہیں فروخت کر کے اپنا روزگار کمانے کا بھی ایک نادر موقع مل رہا ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
شائقین کا بے پناہ رَش
نمائش کے درجنوں اسٹالز پر تینوں دن شائقین کا بے پناہ رَش رہا۔ اس طرح کی نمائشوں سے اِن فنون کو محفوظ رکھنے اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
تصویر: DW/A. Ali
عملی افادیت کی حامل اشياء
ڈاچی میں رکھی گئی اشیاء صرف آرائش کے ہی کام نہیں آتیں بلکہ عملی افادیت کی بھی حامل ہیں۔ رنگا رنگ نقوش سے سجے ان ڈبوں میں قیمتی اَشیاء محفوظ کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Ali
لکڑی کے رنگین پیڑھے
لکڑی کے ان رنگین پیڑھوں کو ہاتھوں سے تیار کیا گیا ہے اور ہاتھوں سے ہی بُنا بھی گیا ہے۔ شائقین نے یہاں پڑی ٹوکریوں میں بھی بے پناہ دلچسپی کا اظہار کیا۔
تصویر: DW/A. Ali
مکی کی روٹی اور ساگ
ڈاچی نمائش کے موقع پر دیسی کھانوں کے سٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔ مکی کی روٹی اور ساگ کے مزے لینے کے لیے اس اسٹال پر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا۔
تصویر: DW/A. Ali
ڈاچی فاؤنڈیشن ایک فلاحی تنظیم
ڈاچی فاؤنڈیشن ایک فلاحی تنظیم ہے، جس کا قیام 2010ء میں عمل میں آیا اور اُسی سال اس کی پہلی ثقافتی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی۔ اس ادارے کا مقصد پاکستانی ثقافت کو فروغ دینا اور اس کے گوناگوں رنگوں کو نمایاں کرنا ہے۔
تصویر: DW/A. Ali
19 تصاویر1 | 19
اس وقت سیاحت کے فروغ کے حوالےسے پاکستان میں پرائیوٹ کے علاوہ حکومتی سیکٹر بھی نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں وفاقی سطح پر ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔ علی ہمدانی کے بقول یہ ٹاسک فورس ایک ایسا خیال تھا جس کے نفاذ کے لیے کافی عرصے سے کوشش ہو رہی تھی کیونکہ دنیا بھر میں وفاق کی سطح پر ایسا ادارہ ہوتا ہے جو کہ پاکستان میں نہیں تھا اور اب ایسے ادارے کا قیام ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
سیاحت کا عالمی میلہ: گلگت بلتستان کی نمائندگی، دیگر صوبے غیر موجود