عالمی شہرت یافتہ جنوبی افریقی ادیب ولبر اسمتھ انتقال کر گئے
15 نومبر 2021
جنوبی افریقہ کے عالمی شہرت یافتہ ادیب ولبر اسمتھ کا اٹھاسی برس کی عمر میں کیپ ٹاؤن میں ان کے گھر پر انتقال ہو گیا۔ وہ بہت پڑھے جانے والے مصنف تھے۔ ان کے انچاس ناولوں کے دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔
اشتہار
ولبر اسمتھ (Wilbur Smith) کی اچانک موت کی ان کے پبلشر نے بھی تصدیق کر دی۔ ولبر اسمتھ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ کے مطابق ان کا انتقال ہفتہ تیرہ نومبر کی سہ پہر ہوا۔ اس ٹویٹ میں لکھا گیا، ''ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر بہت زیادہ پڑھے اور پسند کیے جانے والے بیسٹ سیلر مصنف ولبر اسمتھ کیپ ٹاؤن میں اپنے گھر پر اچانک انتقال کر گئے۔ ان کی موت کے وقت ان کی اہلیہ نیسو ان کے پاس تھیں۔‘‘
ان کے انتقال کے بعد اسی طرح کے اعلانات ولبر اسمتھ بکس نامی ادارے کی ویب سائٹ اور کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی کیے گئے۔ ولبر اسمتھ کی رحلت کی ولبر اینڈ نیسو اسمتھ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر بھی تصدیق کر دی گئی ہے۔
جنوبی افریقہ کے یہ انتہائی مشہور مصنف آج کل کے افریقی ملک زیمبیا میں پیدا ہوئے تھے۔ زیمبیا نے آزادی جنوبی افریقہ سے حاصل کی تھی۔ ان کا اولین ناول When the Lion Feeds تھا، جو 1964ء میں شائع ہوا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے کئی عشروں پر محیط کیریئر میں مزید 48 ناول لکھے۔ ان کی تصانیف کی مجموعی طور پر 140 ملین سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں اور ان کے دنیا کی 30 سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔
ولبر اسمتھ بکس نامی پبلشنگ ہاؤس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک اعلان میں کہا، ''ہم ولبر اسمتھ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کروڑوں مداحوں کے شکر گزار ہیں، جنہوں نے ان کے ناولوں کو بے حد پسند کیا اور جو مصنف کے طور پر ولبر اسمتھ کے تخلیقی سفر میں قارئین کے طور پر ان کے ہم سفر رہے۔‘‘
ولبر اسمتھ کے دو انتہائی مشہور ناولوں Gold Mine اور Shout at the Devil کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ ان کے لٹریری ایجنٹ کیون کونرائے اسکاٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ولبر اسمتھ ایک ایسے ادیب تھے، جن کا افریقہ کے بارے میں علم اور تخلیقی تخیل دونوں ہی لامحدود تھے۔‘‘
م م / ع ح (اے پی، ڈی پی اے)
بُکر پرائز: ادبی روایت تبدیل کرنے والے ادیب
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔