عالمی قرض رپورٹ: دنیا کے ایک سو بائیس ممالک انتہائی مقروض
4 اپریل 2019
دنیا بھر میں اس وقت اتنے زیادہ ممالک انتہائی مقروض ہیں، جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس وقت ایک سو بائیس ریاستیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔
اشتہار
عالمی سطح پر مختلف ممالک کو درپیش قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال سے متعلق یہ تفصیلات ’قرض رپورٹ 2019ء‘ یا Debt Report 2019 میں بتائی گئی ہیں، جو جوبلی جرمنی نامی ادارے نے جرمن دارالحکومت برلن میں بدھ تین اپریل کو پیش کی۔
اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں ماہرین کی طرف سے دنیا کے 154 ممالک کو درپیش مالیاتی مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 122 ریاستیں ’خطرناک حد تک مقروض‘ پائی گئیں۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ 2017ء میں خطرناک حد تک مقروض ممالک کی تعداد 119 تھی، جو آج 2019ء میں مزید تین ریاستوں کے اضافے کے ساتھ 122 ہو چکی ہے۔
جوبلی جرمنی ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں سول سوسائٹی اور کلیسائی تنظیموں کے نمائندہ کئی گروپ شامل ہیں۔ یہ تنظیم اپنے طور پر تجزیوں، لابی اور مشاورت کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ عالمی سطح پر بےتحاشا قرضوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہونا چاہییں۔
اس رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے پسماندہ اور کم ترقی یافتہ براعظم سمجھے جانے والے افریقہ میں تو بہت سے ممالک کو درپیش قرضوں کی بحرانی صورت حال اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اور کوئی کوششیں کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
مالدووا کے تنہا زندگی گزارتے بچے، ماں باپ کمانے چلے گئے
اپنے اعلانِ آزادی کے پچیس سال بعد بھی مالدووا آزاد اور خود مختار ملک بننے والی تمام سابق سوویت جمہوریاؤں میں سے غریب ترین ہے۔ بہت سے شہری روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جا چکے ہیں اور گھر پر اُن کے بچے اکیلے رہ گئے ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
پیچھے رہ گئے
تانیا نے پانچ سال پہلے اٹلی کا رُخ کیا۔ وہاں وہ بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور ماہانہ تقریباً 850 یورو کماتی ہے۔ پیچھے وطن میں اُس کی بیٹیاں بارہ سالہ اولگا، نو سالہ سابرینا اور آٹھ سالہ کیرولینا ایک مدت تک اکیلے رہتی رہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
ماں کے ساتھ فون پر باتیں
تانیا کی بیٹیوں کا ٹیلیفون پر اٹلی میں اپنی ماں کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ شروع میں اکیلے رہنے کے بعد یہ بچیاں اُن مختلف گھروں میں رہتی رہیں، جنہیں ان کی والدہ اٹلی سے ان کے خرچے کے لیے پیسے بھیجتی تھی۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
کھانے کی میز پر اکیلا پن
بارہ سالہ اولگا اب چسیناؤ میں اپنا اسکول ختم کر چکی ہے جبکہ سابرینا اور کیرولینا اٹلی میں ماں کے پاس جا چکی ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
دادی اماں کا ساتھ
گزرے سات برسوں میں کاتالینا کا زیادہ تر وقت ماں باپ کے بغیر ہی گزرا ہے، جو ملازمت کی تلاش میں پہلے ماسکو گئے اور پھر ورکنگ ویزا ملنے پر اٹلی منتقل ہو گئے۔ کاتالینا کی دادی پہلے ایک اور گاؤں میں رہتی تھی لیکن پھر وہ کاتالینا اور اُس کے بھائی وکٹر کے پاس چلی آئی۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
جدائی کے بعد ملن
اوتیلیا صرف بارہ برس کی تھی جب اُس کے والدین مالدووا چھوڑ گئے۔ اِس کے ماں اور باپ نے چار چار ہزار یورو دے کر اٹلی کے لیے قانونی دستاویزات حاصل کیں۔ اس ننھی سی بچی نے پھر پانچ برس تک اپنے ماں باپ کو نہ دیکھا اور دادی کے ساتھ رہتی رہی، جسے وہ ’ماں‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ ایک سال قبل ماں باپ کو اٹلی میں رہائش کا قانونی اجازت نامہ ملنے کے بعد یہ خاندان پھر سے اکٹھا ہو گیا۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
سخت محنت
لیلیا آٹھ سال قبل اپنے شوہر کے ساتھ مغربی یورپ چلی آئی۔ دونوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے لیے قرضہ لے کر جو پیسے ادا کیے تھے، اُس کی واپس ادائیگی کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ تب اُن کی بیٹیاں نادیہ اور علینا بالترتیب نو اور چھ برس کی تھیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
دُور سے جانے والے پارسل
لیلیا اپنی بیٹیوں کو مہینے میں تین پارسل بھیجا کرتی تھی۔ اب یہ کنبہ پھر سے اکٹھا ہو گیا ہے لیکن یہ ملن بہت مہنگا پڑا ہے۔ دونوں بیٹیوں کے ویزوں کے لیے انہیں پندرہ پندرہ سو یورو دینا پڑے ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
بچپن ماں باپ کے بغیر
مالدووا کے ماں باپ کے بغیر پرورش پانے والے بچوں کی کہانی جرمن خاتون فوٹوگرافر آندریا ڈِیفن باخ نے اپنی کتاب ’والدین کے بغیر وطن‘ میں بیان کی ہے۔ جرمن زبان میں یہ باتصویر کتاب کیہرر پبلشرز نے شائع کی ہے۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
8 تصاویر1 | 8
جوبلی جرمنی کے ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر قرضوں کی یہ صورت حال اتنی ناامید کر دینے والی ہے کہ اس کی وجہ سے ہر جگہ اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہوتی نظر نہیں آتی اور یہ رجحان بظاہر جاری رہے گا۔
’سستے قرضے‘ بھی ایک بڑی وجہ
جوبلی جرمنی کی اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق قرضوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس پریشان کن صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت مند اور غریب ممالک کو مختلف عالمی تنظیموں اور امیر ریاستوں کی طرف سے جو رقوم قرض کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں، ان کے لیے شرح سود اتنی کم رکھی جاتی ہے کہ ان قرضوں کو ’سستے قرضوں‘ کے طور پر بیچا جاتا ہے۔
لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایسا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ بڑی چھلانگ لگا لیتے ہیں اور یوں ایک ایسے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لیے کبھی ممکن ہی نہیں ہوتا۔
افریقہ کی امیر ترین شخصیات کہاں رہتی ہیں؟
افریقہ کے زیریں سحارا علاقوں میں غربت ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم نیو ورلڈ ویلتھ نامی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اس براعظم میں لکھ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW
جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں براعظم افریقہ کے سب سے زیادہ لکھ پتی افراد مقیم ہیں۔ چھیالیس ہزار آٹھ سو ایسے افراد کیپ ٹاؤن اور جوہانسبرگ میں رہتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اس ملک میں لکھ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تقابلی جائزے کے حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ برطانیہ میں لکھ پتی افراد کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ چالیس ہزار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نائجیریا
فوربز میگزئن کے مطابق افریقہ کا امیر ترین شخص آلیکو ڈانگوٹے نائجیریا سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ خوراک کی مصنوعات، سیمنٹ اور منرل آئل کے شعبہ جات سے منسلک ہیں۔ ڈانگوٹے کی مجموعی مالیت 18.2 بلین امریکی ڈالر ہے۔ اس افریقی ملک سے بھی لوگ یورپ میں پناہ لینے کے لیے فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Von Loebell/World Eco
کینیا
کینیا میں آٹھ ہزار پانچ سو لکھ پتی افراد کے پاس موجود رقوم ملک کی مجموعی اقتصادیات کے دو تہائی کے برابر بنتی ہیں۔ اس افریقی ملک میں امیر ترین افراد کے پاس اوسطاً 83 ملین ڈالر کے برابر رقوم موجود ہیں۔ دوسری طرف اس ملک کی تقریبا نصف سے زائد آبادی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم کماتی ہے۔
تصویر: Fotolia/vladimir kondrachov
انگولا
نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی افریقی ملک انگولا میں آئل کی صنعت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے باعث انفرادی سطح پر متعدد افراد امیر ترین بن گئے ہیں۔ اسی ملک میں افریقہ کی امیر ترین خاتون بھی رہتی ہے۔ ملکی صدر کی بیٹی ازبیلا دوس سانتوس کی ویلتھ کا اندازہ 3.2 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
موریشس
بحرہند میں واقع اِس جزیرے پر صرف تیرہ لاکھ افراد آباد ہیں۔ اس کے باوجود اس ملک میں تین ہزار دو سو لکھ پتی افراد رہتے ہیں۔ یوں تناسب کے اعتبار سے افریقہ میں سب سے زیادہ امیر ترین افراد اسی ملک میں رہتے ہیں۔ اس ملک میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے جبکہ ’ٹیکس ہیوَن‘ کے حوالے سے بھی اس ملک کی ساکھ بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ria Novosti/Anton Denisov
نمیبیا
اس ملک میں کان کنی کی صنعت ملک کی پچیس فیصد معیشت کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ نمیبیا کی برآمدت میں ہیرے انتہائی اہم شمار کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس ملک کی آبادی تقریبا دو ملین کے قریب ہے لیکن یہاں اکتیس سو افراد کے پاس ایک ملین ڈالر مالیت سے زائد کا سرمایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Smityuk
ایتھوپیا
زیریں سحارا کے اِس افریقی ملک ایتھوپیا نے حال ہی میں ایسے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے، جہاں امیرترین شخصیات مسکن بنائے ہوئے ہیں۔ قدرے استحکام اور غیر ملکی سرمایا کاری کی وجہ سے یہ ملک 2003ء سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ اس ملک میں اٹھائیس سو افراد خود کو امیر ترین کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اس افریقی ملک میں بھی ایک تہائی آبادی ابھی تک غربت کا شکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
گھانا
سونا، تیل اور کوکو گھانا کی اہم ترین برآمدات ہیں اور انہی کی وجہ سے وہاں کچھ لوگ امیر بھی ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ گھانا میں فنانشل سروسز اور پراپرٹی کے کام نے بھی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
بوٹسوانا
عالمی بینک کے مطابق بوٹسوانا اس براعظم میں ترقیاتی منصوبہ جات کے حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ کئی عشروں سے اس ملک کی اقتصادی نمو کی شرح میں قدرے استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ اس ملک میں چھبیس سو افراد لکھ پتی ہے۔ ان میں سے بہت ہیروں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ تاہم اس ملک میں بھی غربت ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی اور بے روزگاری بھی اس ملک کے مسائل میں شامل ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
آٹھ سال قبل ہی آئیوری کوسٹ میں جنگ ختم ہوئی تھی۔ تب سے اس افریقی ملک میں اقتصادی ترقی کی رفتار قدرے مستحکم ہے۔ آئیوری کوسٹ میں تئیس سو لکھ پتی افراد رہتے ہیں۔ ان افراد کی تعداد آئندہ کچھ سالوں کے دوران مزید بڑھنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں ہر کوئی منافع میں نہیں ہے۔
تصویر: DW
10 تصاویر1 | 10
قرضوں پر پابندی اور معافی کا مطالبہ
برلن میں جوبلی جرمنی کے ایک مرکزی عہدیدار کلاؤس شِلڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر مختلف ممالک کی مدد کے لیے نہ صرف دیوالیہ پن کے خلاف ایک مؤثر نظام کی ضرورت ہے بلکہ قرض دہندہ اداروں اور امیر ریاستوں کو انتہائی مقروض ممالک کو نئے قرضے دینے پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے ذمے زیادہ تر قرضے معاف بھی کر دینا چاہییں۔
شِلڈر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں موزمبیق جیسے ممالک کو انتہائی ڈرامائی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس ملک کی حالت اتنی خراب اور وہاں مالی وسائل کی اتنی کمی ہے کہ مارچ کے وسط میں آنے والے ایک تباہ کن طوفان کے بعد سے وہاں قریب دو ملین متاثرہ انسانوں کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی جا سکی۔
سونے کی سب سے بڑی کان کے سامنے سسکتی غربت
دنیا میں سونے کی سب سے بڑی کان انڈونیشیا میں واقع ہے۔ ’گراس برگ‘ نامی اس کان سے سونا نکال کر باقی فضلے کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ کامورو قبیلے کے غریب افراد اس گندگی سے سونا چھاننے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سونے کی چمک
انڈونیشی حکومت گراس برگ کی کان سے سالانہ 70 بلین ڈالر کماتی ہے لیکن اس کے آس پاس رہنے والے ’ایکوا‘ دریا سے مچھلیاں پکڑ کر یا پھر کان سے دریا میں پھینکی جانے والی گندگی سے سونے کے ذرات چن کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
چراغ تلے اندھیرا
ایکوا دریا سے سونا نکالنے کے چکر میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ بھی یہاں بس گئے ہیں۔ تاہم ستر بلین ڈالر کی حکومتی آمدنی میں یہاں کے رہنے والوں کا حصہ بہت کم ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
اونچی دکان پھیکا پکوان
یہاں کے مقامی باشندوں کو کان کی توسیع کے باعث بے گھر ہونا پڑا۔ سونے کی کھدائی کا کام کرنے والی ’فری پورٹ‘ کمپنی کے مطابق اِس نے 30،000 لوگوں کو ملازمت دی ہے تاہم مقامی رہائشیوں کی تعداد اب بھی محض تیس فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Rondonuwu
انڈونیشیا تانبے کی پیداوار میں بھی آگے
سونے کی سب سے بڑی کان کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا تانبے کی معدنیات کے حوالے سے بھی دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گراس برگ کی کان انڈونیشیا کے پاپوا صوبے میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ماحولیاتی آلودگی
گراس برگ کان سے قریب 200،000 ٹن بےکار مادہ یومیہ بنیادوں پر ایکوا دریا میں بہایا جاتا ہے جس کے سبب ہزاروں ہیکٹر جنگلات اور سبزہ زار ویران ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
دریا کی کیچڑ میں چھپا رزق
سونے کی کھدائی کے دوران نکلنے والے فضلے میں سونے کے باریک ذرات بھی ہوتے ہیں۔ دریا کے کنارے پر کیچڑ جمع کرنے والے غربت زدہ افراد قریب ایک گرام سونا روزانہ جمع کر پاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
غیر قانونی کان کنی
سن 2015 میں 12،000 غیر قانونی کان کنوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ صوبائی حکومت اِس غیر قانونی کان کنی کو روکنا چاہتی ہے لیکن دوسری جانب ناقدین اِس حکومتی پالیسی کو کان کی ٹھیکے دار کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مرکری سے فضا زہریلی
خا م مال سے معدنیات نکالنے کے لیے بڑی مقدار میں پارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث دریا اور تمام فضا متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
چمکتے سونے کی چور بازاری
سونے کے اِس کاروبار میں علاقے میں چور بازاری کو بھی فروغ دیا ہے۔ گراس برگ کان کے مضافات میں ایک سیاہ معیشت ساتھ ساتھ پنپ رہی ہے جس سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
9 تصاویر1 | 9
چین نے بےتحاشا قرضے دیے
اس رپورٹ کے مطابق سن 2000ء سے لے کر 2017ء تک چین نے براعظم افریقہ کے ممالک کو ان کے ہاں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کے لیے جتنے قرضے دیے، ان کی مجموعی مالیت 143 ارب یورو یا 161 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
کلاؤس شِلڈر کے بقول اس کے باوجود چین افریقہ کے قرضوں سے متعلق مسائل کے حوالے سے کوئی ’بہت برا ملک‘ اس لیے نہیں ہے کہ بیجنگ حکومت اسی عرصے میں بہت سے افریقی ممالک کے ذمے بےتحاشا قرضے معاف بھی کر چکی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 122 انتہائی مقروض ممالک کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے، ان میں سے زیادہ تر مسائل کی وجہ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف اور یورپی ترقیاتی فنڈ جیسے اداروں کی طرف سے دیے جانے والے وہ قرضے ہیں، جو آج بھی روایتی طریقہ کار اور شرائط کے تحت دیے جاتے ہیں۔ افریقہ کے علاوہ ایشیا میں منگولیا، بحرین اور لبنان اور جنوبی ایشیا میں بھوٹان اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال کا سامنا ہے، جو ان ممالک کی معیشتوں کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہو رہی ہے۔
جان شیلٹن / م م / ع ا
پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد
’سٹینفورڈ سوشل اِنووویشن ریویو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خیرات کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برطانیہ، جہاں شہری مجموعی قومی پیداوار کا 1.3 فیصد خیرات کرتے ہیں، کینیڈا میں شہری 1.2 فیصد خیرات کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات
’پاکستان سینٹر فار پھلنتھروپی‘ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اشیاء یا رقم اداروں کے بجائے مستحق افراد کو براہ راست دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افرادکو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Beenish Ahmed
الی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
تصویر: Imago
کم بھروسہ
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
تصویر: Imago
دولت کا ہونا
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: AP
نوے فیصد خیرات براہ راست مستحق افراد
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔