عالمی ماحولیاتی مذاکرات تعطل کا شکار، دنیا میں مظاہرے
9 ستمبر 2018
اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے ماحولیاتی مذاکرات شدید تعطل کا شکار ہیں۔ اس صورت حال پر ہفتہ آٹھ ستمبر کو دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
اشتہار
بنکاک میں جاری ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق مذاکرات میں پیدا شدہ تعطل کے تناظر میں دنیا بھر میں لوگوں نے آٹھ ستمبر کو احتجاجی مظاہرے کیے۔ نوے سے زائد ممالک میں تقریباً ایک ہزار احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیوں کا انتظام کیا گیا۔ ان میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ زمین کے تبدیل ہوتے ماحول کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ہزار ہا مظاہرین نے پیرس امن ڈیل پر عمل پیرا ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
دوسری جانب تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی چھ روزہ کانفرنس بغیر کسی پیش رفت کے اپنی منزل کو پہنچ گئی ہے۔
دنیا بھر میں مظاہروں کا انتظام کرنے والے ماحول دوست سرگرم کارکنوں نے ایسے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ماحولیاتی کانفرنس میں مزید کسی پیش رفت نہ ہونے کے پس پردہ امریکا کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پیرس امن ڈیل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس ڈیل پر اُن سے قبل کے صدر باراک اوباما نے دستخط کیے تھے۔
امریکی شہر سان فرانسسکو میں چوبیس گھنٹوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں متبادل ماحول دوست توانائی کے حق میں آواز بلند کی گئی ہے۔ مظاہرین نے جدید سائنسی ترقی کو ماحول دشمن بھی قرار دیا۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر جیری براؤن بھی کلائمیٹ ایکشن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے آئندہ ہفتے منعقد ہونے والی گلوبل کلائمیٹ ایکشن سمٹ میں بھی ماحول دوستوں کو مدعو کیا ہے۔
یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک لاکھ سے زائد ماحول دوست افراد ایک مظاہرے میں شریک ہوئے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں دس ہزار سے زائد افراد نے ایک مظاہرے میں شریک ہو کر ماحول دوستی کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کی برسلز میں واقع عمارت کے سامنے بھی کلائمیٹ چینج کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ ان مظاہروں کے حق میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اپنی آواز شامل کی ہے۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ماحولیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس چار ستمبر کو شروع ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں 196 ممالک کے قریب دو ہزار مندوبین شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں سن 2016 کی پیرس کلائمیٹ ڈیل کے نفاذ کو ممکن بنانے کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ کانفرنس کے آغاز پر ترقی پذیر ممالک نے ترقی یافتہ اقوام پر مزید ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا مطالبہ بھی کیا جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیر ملکوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔
بنکاک کانفرنس اقوام متحدہ کے رواں برس منعقد ہونے والی سی او پی چوبیس کے انعقاد سے قبل کی آخری کانفرنس تھی۔ سی او پی چوبیس کی میزبانی پولینڈ کا شہر کاٹووٹسے کرے گا۔ یہ رواں برس دو سے چودہ دسمبر تک جاری رہے گی۔
آسٹریلیا: اب تک کی بدترین خشک سالی
خشک اور دم توڑتے ہوئے درخت، آخری سانسیں لیتے ہوئے لاغر جانور اور بھیڑیں، یہ سب نیو ساؤتھ ویلز میں آنے والی تباہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اس خشک سالی کی یہ تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Gray
تباہی
ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا یہ پرانا درخت آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے علاقے ٹیم ورتھ کی سنگین صورتحال کو عیاں کر رہا ہے۔ سردی کے باوجود نیو ساؤتھ ویلز ریاست سو فیصد قحط سالی کا شکار ہو چکی ہے۔ شمالی ریاست کوئینزلینڈ میں بھی خشک سالی پھیلتی جا رہی ہے۔ ابھی یہ خشک سالی کئی ماہ تک جاری رہے گی۔
تصویر: Reuters/D. Gray
کیا یہ مریخ ہے؟
اس سرخ زمین پر جو نظر آ رہا ہے، وہ ایک کینگرو کا سایہ ہے، جو ایک واٹر ٹینک سے پانی پینے کی کوشش میں ہے۔ یہ فارم ہاؤس نیو ساؤتھ ویلز کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ جون کے آغاز سے مسلسل قحط سالی نے یہاں بہت کچھ تباہ کر دیا ہے۔ فارم ہاؤس کے مالک ایش وٹنی کہتے ہیں، ’’میری ساری زندگی یہاں گزری ہے لیکن میں نے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بقا کی جنگ
بھیڑیں آسٹریلوی زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہیں۔ ان کی اون اور گوشت کو بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اب چارہ نہ ہونے کے باعث کسان اپنی بھیڑوں کو خود ہی گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں تاکہ کم از کم گوشت ہی حاصل کر لیا جائے۔ حکومتی ریلیف پیکج بھی کسانوں کو ہونے والے مالی نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا۔
تصویر: Getty Images/B. Mitchell
موسمیاتی تبدیلیاں
کبھی یہاں سرسبز فصلیں لہراتی تھیں لیکن اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس علاقے کے کسان گریگ اسٹونز یہاں اناج کے ساتھ ساتھ جانور پالتے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’انیس سو تیس کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم موسم سرما اور خزاں میں یہاں کوئی فصل نہیں اگا سکے۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
ریگستان؟
گریگ اسٹونز کہتے ہیں، ’’زمین انتہائی خشک ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنے جانوروں کو دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا ہے تاکہ انہیں کچھ کھانے کو مل سکے۔‘‘ اس خشک سالی سے بچاؤ کے لیے کسانوں نے پانی ایسے بڑے بڑے ٹینکوں میں جمع کیا تھا لیکن اب یہ ذخیرہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Gray
اناج ٹرین
بھیڑوں کو زندہ رکھنے کے لیے اس طرح ایک لمبی لائن میں اناج مہیا کیا جا رہا ہے۔ کبھی اس علاقے میں زمین انتہائی شاداب تھی۔ لیکن اب بھیڑوں کو خوراک مہیا کرنے پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے کسانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی وسیع تر قحط سالی ہم نے گزشتہ نصف صدی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بہت دیر ہو چکی!
کسان اب درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اپنے جانوروں کو کھلا رہے ہیں۔ متاثرین کو اب مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے لیکن مقامی کسانوں کے مطابق اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک ہی امید باقی بچی ہے، اور وہ امید ہے بارش۔
تصویر: Reuters/D. Gray
بنجر زمین
براعظم آسٹریلیا میں خشک سالی جیسی تبدیلیاں قدرتی ہیں۔ یہ تصویر سن دو ہزار چودہ میں کوئینزلینڈ میں لی گئی تھی۔ اس وقت اس ریاست کا تقریباﹰ اسی فیصد حصہ خشک سالی سے متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/L. Maree
بدترین خشک سالی
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بل نے ملکی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں خشک سالی سے متعلق اپنے ایک خطاب میں کہا، ’’اب ہم خشک سالی والا ملک بن چکے ہیں۔‘‘ صرف آسٹریلیا ہی میں نہیں، دنیا بھر میں خشک سالی کئی علاقوں کو بنجر کرتی جا رہی ہے۔