1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فطرت اور ماحولافغانستان

عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں افغان طالبان کے وفد کی شرکت

11 نومبر 2024

اقوام متحدہ کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس سی او پی 29 میں شرکت کے لیے افغان طالبان کا ایک وفد بھی باکو پہنچ رہا ہے۔ ماضی میں افغان طالبان کی اس کانفرنس میں شرکت کی کئی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔

افغانستان میں سیلاب کے بعد تباہی کا منظر
 نسبتاً کم آبادی کے باوجود دنیا بھر میں افغانستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس سال آنے والے سیلاب میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Muhammad Yasin/Middle East Images/AFP/Getty Images

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور روئٹرز کو بتایا کہ کابل کے طالبان حکام اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، جو گیارہ نومبر سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں شروع ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سالانہ کانفرنس سی او پی 29 کے نام سے معروف ہے، جو آئندہ 22 نومبر تک جاری رہے گی۔

سن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب افغانستان اقوام متحدہ کی سالانہ عالمی موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کرے گا۔

افغانستان میں سیلابوں سے ہزارہا بچے متاثر

طالبان کی حکومت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہے اور اقوام متحدہ نے بھی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی نشست کو طالبان کو حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

عالمی موسمیاتی اجلاس سی او پی 29 کے منتظمین نے سن 2021  میں افغان کی شرکت پر غور کرنے کے فیصلے کو موخر کر دیا تھا، جس کے بعد سے تمام تر کوشش کرنے کے باوجود بھی طالبان دیگر حالیہ سربراہی اجلاسوں میں شرکت کرنے سے قاصر رہے تھے۔

افغانستان کے غیر سرکاری اداروں نے بھی شکایت کی تھی کہ طالبان کی واپسی کے بعد سے انہیں اس قسم کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

افغانستان میں شدید بارشیں اور سیلاب، تین سو سے زائد ہلاکتیں

موسمیاتی تبدیلی سیاسی نہیں 'انسان دوست' موضوع ہے

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ "افغان حکومت کا ایک وفد باکو میں شرکت کرے گا۔"

تاہم اے ایف پی اور روئٹرز دونوں نے آف دی ریکارڈ ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ طالبان وفد کو مکمل شریک ہونے کے بجائے صرف مبصر کا درجہ حاصل ہو گا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی قومی ماحولیاتی ایجنسی کا وفد "ممکنہ طور پر دائرہ بحث میں حصہ لے سکے گا اور ممکنہ طور پر دو طرفہ ملاقاتیں بھی کر سکے گا۔"

ذرائع نے کہا کہ افغانستان کے مندوبین کو مکمل شرکاء کے طور پر معیاری اسناد دینا ممکن نہیں تھا، کیونکہ طالبان کے اقتدار کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔

افغانستان کے کسان بارش نہ ہونے کی وجہ سے پریشان

بہت سے افغان باشندے زرعی کاشتکاروں کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں اور موسمی بارشوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ان کی زمینی بنجر ہوتی جا رہی ہیں اور عوام خوراک کی شدید قلت اور عدم تحفظ کا سامنا رہتا ہےتصویر: Ali Khara/REUTERS

طالبان عموماً مزید بین الاقوامی شناخت کے خواہاں ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں بعض اہم اقدام بھی کیے ہیں، جیسے طالبان وزراء کی دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اجلاسوں میں شرکت کے ساتھ ہی گزشتہ دو برسوں کے دوران انہوں نے چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں بھی  شرکت کی ہے۔

لیکن ان کی بنیاد پرست طرز حکمرانی، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ان کے تفریقی سلوک نے اب بھی طالبان کو عالمی سطح پر کم و بیش تنہا کر رکھا ہے۔

تاہم ملک کی نیشنل انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (این ای پی اے) کے حکام کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر اس کے داخلے میں سیاسی رکاوٹیں مزید کم ہونی چاہئیں۔

خانہ جنگیوں کی طویل تاریخ کا ماحولیاتی تباہی میں ہاتھ

ایجنسی کے نائب سربراہ زین العابدین عابد نے گزشتہ ماہ اے ایف پی کو بتایا تھا کہ "موسمیاتی تبدیلی ایک انسانی موضوع ہے۔ ہم نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو سیاست سے منسلک نہ کرے۔"

خشک سالی اور سیلاب سے دو چار ملک

 نسبتاً کم آبادی کے باوجود دنیا بھر میں افغانستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

اس سال کے شروع میں آنے والے سیلاب میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ زراعت پر انحصار کرنے والا یہ ملک حالیہ برسوں میں دہائیوں کی بدترین خشک سالی کا شکار رہا ہے۔

بہت سے افغان باشندے زرعی کاشتکاروں کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں اور موسمی بارشوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بنجر زمینوں میں پیداوار میں کمی کے سبب عوام خوراک کی شدید قلت اور عدم تحفظ کا سامنا رہتا ہے۔

ص ز / ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

افغانستان: 'سیلاب نے ہماری زندگی تباہ کر دی'

02:27

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں