عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے حاشیے پر امریکی ٹیم روایتی کوئلے سمیت ہائیڈرو کاربن ایندھن کی ترویج کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کرے گی۔
اشتہار
اگلے ماہ اقوام متحدہ کی سالانہ ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر امریکی ٹیم ایک الگ تقریب کا انعقاد کرے گی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی انتظامیہ کے تین عہدیداروں کے نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ یہ ٹیم کوئلے سمیت دیگر روایتی ایندھن کی ترویج کرے گی۔
اس سے قبل ماحول دوست تنظیموں کی جانب سے مسلسل زور دیا جاتا رہا ہے کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور بڑھے زمینی درجہ حرارت کی روک تھام کے لیے ہائیڈرو کاربن ایندھن کے استعمال کو روکا جانا چاہیے۔
سن 2017ء میں بون میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کوئلے اور دیگر روایتی ایندھن کو زیادہ بہتر انداز سے استعمال کرنے اور اس کے لیے بہتر ٹیکنالوجی کو بروئے کار لائے جانے پر زور دیا گیا تھا۔
اس برس یہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس پولینڈ کے شہر کاٹویچ میں منعقد ہو رہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پولینڈ کا یہ علاقہ کوئلے کی کان کنی کے لیے مشہور ہے۔ تاہم سن 2015ء میں پیرس میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں رواں صدی میں روایتی ایندھن کے استعمال کے مکمل خاتمے سمیت بڑے اہداف طے کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت شمسی اور پون توانائی سمیت توانائی کے پائیدار اور ماحول دوست ذرائع کے لیے ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ سرمایہ خرچ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جانورں کی بڑے پیمانے پر اموات
جب ہزاروں جانور ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں، تو محققین زیادہ تر ایسی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
آکسیجن کی کمی
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
نہ مچھلی، نہ پرندوں کے لیے خوراک
گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Thiessen
کچھوؤں میں انفیکشن
گرین سی ٹرٹل یا سبز پانی کے کچھوے بہت بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بڑے کچھوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرین سی ٹرٹل ناپید ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ آج کل یہ کچھوے ایک خاص قسم کے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کچھوے کچھ کھا نہیں سکتے ہیں اور بہت مشکل سے ہی حرکت کر پاتے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں علم ہو سکا ہے کہ یہ انفیکشن اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
اس تھوتھنی والے ہرن نما جانور کو سیگا کہا جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ گزشتہ برس کی ابتدا میں دنیا بھر میں سیگا کی نصف تعداد اچانک مر گئی تھی اور وہ بھی صرف دو ہفتوں کے دوران۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ جانور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ایک سال میں ان کی نسل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک اس قسم کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
قیر ماہی بھی بھٹک رہے ہیں
جنوری 2004ء میں لاطینی امریکی ملک چلی کے ساحلوں پر ہزاروں قیر ماہی یا آکٹوپس راستہ بھٹک کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے رواں برس خود کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ محققین ان واقعات کی ذمہ داری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب محققین تشویش کا شکار بھی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قیر ماہی کی ہلاکتوں کے واقعات پہلے کبھی سامنے آئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ناقابل برداشت حدت
گزشتہ برس بھارتی شہر بھوپال میں اچانک بڑی تعداد میں چمگادڑیں مردہ حالت میں آسمان سے زمین پر گریں۔ اسی طرح 2014ء میں آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ میں بھی ایک لاکھ سے زائد چمگاڈریں ملی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو مردہ تھیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ گرمی کے معاملے میں یہ پرندہ انتہائی حساس ہے اور بہت زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
تصویر: Berlinale
وہیل مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکتیں
جرمنی ہو، امریکا ہو، نیوزی لینڈ یا پھر چلی۔ کئی دہائیوں سے ان ممالک میں متعدد وہیل مچھلیوں کی زندگی کا خاتمہ ساحلوں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس چلی کے ایک ساحل پر چار سو سے زائد وہیل مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اسی طرح رواں برس اب تک شمالی یورپ کے ساحلوں پر انتیس وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Charisius
7 تصاویر1 | 7
یہ بات اہم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پیرس معاہدے کی وجہ سے امریکی معیشت کی شرح نمو گر سکتی ہے اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ وہ توانائی سے متعلق متعدد نئی حکمت عملیاں سامنے لائے، کیوں کہ امریکی مبصرین کے مطابق اگر آئندہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کامیاب نہ ہوئے، تو نیا صدر دوبارہ سے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں امریکا کی شمولیت کا اعلان کر سکتا ہے۔