عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کے لیے قرضہ
5 ستمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واشنگٹن سے آمدہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس قرضے کا بنیادی مقصد اقتصادی اصلاحات اور بالخصوص توانائی کے شعبے میں بہتری لانا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس قرضے کے سلسلے میں اقساط کی فراہمی سہ ماہی جائزوں کے بعد ہی ممکن ہو گی۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس قرضے کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت دیگر مالیاتی اور امدادی اداروں سے مزید قرضے اور مالی امداد لینے کے قابل ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کو اس وقت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے تاہم قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک میں ہنر مند افراد اور ترقی کے مواقع کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کو یہ قرضہ ’ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی‘ (ای ایف ایف) نامی پروگرام کے تحت دیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایسے ممالک کو قرضہ دیا جاتا ہے، جو انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے سنگین مالی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور جنہیں ان مسائل کو دور کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
نواز شریف کی حکومت نے اس قرض کے لیے درخواست مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے چند ہفتے بعد ہی دے دی تھی۔ اس قرض کی حتمی منظوری سے قبل پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے اہلکاروں نے کئی ماہ تک مذاکرات جاری رکھے تھے۔ قبل ازیں اسلام آباد حکومت نے آئی ایم ایف کی طرف سے سخت اقتصادی اصلاحات کی شرائط کی وجہ سے 2011ء میں 1.3 بلین ڈالر کا قرض لینے سے انکار کر دیا تھا۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی حالت ان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس سے وابستہ جیکب کرکیگارڈ نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پروگرام کی نگرانی آئی ایم ایف کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہو گا۔
ماہر اقتصادیات کرکیگارڈ نے کہا کہ پاکستان میں فوج کا کردار انتہائی اہم ہے اور وہاں سکیورٹی معاملات کے علاوہ اقتصادی پروگراموں میں بھی فوج کی مداخلت دیکھی جا سکتی ہے، اس لیے اس قرض پروگرام کے بدلے میں آئی ایم ایف جن اصلاحات کا تقاضا کر رہا ہے، پاکستانی فوج اس کی حمایت نہیں کرے گی۔ کرکیگارڈ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اگر ایک جوہری طاقت نہ ہوتا تو آئی ایم ایف وہاں کی صورتحال میں استحکام کے لیے شاید اتنی زیادہ دلچسپی نہ لیتا۔