عالمی مالیاتی بحران اور MDGs
26 اپریل 2010عالمی برادری نے سن 2000 ميں نئی ہزاری کے لئے جو اہداف مقرر کئے تھے، ان کے مطابق دنيا بھر ميں غربت ميں نصف، بچوں کی اموات ميں دو تہائی اور زچگی کے دوران ماؤں کی اموات ميں تين چوتھائی کی کمی کی جانا تھی۔ اس کے علاوہ صاف پانی تک رسائی اور امراض کی روک تھام کو بھی کہيں زيادہ بہتر بنانے کا عزم کيا گيا تھا۔ عالمی بينک اور بین الاقوامی مالياتی فنڈ کا کہنا ہے کہ عالمی اقتصادی بحران کے باوجود سن 2015ء تک عالمی غربت ميں نصف کی کمی کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہے۔ تب ايک ڈالر پچيس سينٹ سے بھی کم روزانہ اجرت پانے والے انسانوں کی تعداد 15 فيصد رہ جائے گی۔
اگر عالمی اقتصادی بحران پيدا نہ ہوتا، تو ايسے انسانوں کی تعداد اس سے بھی کہيں کم ہو سکتی تھی۔ واشنگٹن ميں عالمی مالياتی فنڈ کے نائب ڈائریکٹرموريلو پُرتگال نے کہا: ’’اگر عالمی مالياتی بحران پيدا نہ ہوتا تو جو انسان دنيا ميں مزيد برسوں تک انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتے رہيں گے، ان کی تعداد کئی ملين کم ہوتی۔‘‘
تاہم عالمی مالياتی فنڈ کے نائب ڈائریکٹر نے کہا کہ عالمی بينک اور بین الااقوامی مالياتی فنڈ کے مشترکہ مطالعے سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ عالمی اقتصادی بحران کے اثرات اتنے زيادہ شديد ثابت نہيں ہوئے جتنا کہ انديشہ تھا۔ سن 90 کے عشرے سے بہت سے ممالک ميں اہم ترقی ہوئی ہے۔ افراط زر اور قرضوں ميں کمی ہوئی ہے اور نجی مالیاتی منڈيوں تک رسائی بہتر ہو گئی ہے۔ بحران پر قابو پانا اس لئے بھی بہت زيادہ مشکل ثابت نہيں ہوا کہ وہ اندر سے نہيں بلکہ باہر سے آيا تھا۔ خصوصاً ايشيا نے غربت کے تناسب کو، جو سن 1990 ميں 55 فيصد تھا، سن 2005 ميں 17 فيصد سے بھی کم کرنے ميں کاميابی حاصل کر لی۔ اس کی وجہ خاص طور پر چين اور بھارت میں اقتصادی ترقی ہے۔
تاہم عالمی بينک کے چیف اکانومسٹ ژی فُولن کا کہنا ہے کہ ابھی زيادہ پر اميد ہونے کی کوئی گنجائش نہيں ہے:’’ اندازہ ہے کہ نئی ہزاری کے لئے مقرر کردہ اہداف ميں سے صرف غربت ميں کمی کا ہدف ہی حاصل کيا جا سکا ہے۔
اس کا اندازہ بچوں اور ماؤں کی اموات ميں مطلوبہ حد تک کمی نہ ہو سکنے اور نکاسیء آب کی سہوليات کے ناکافی ہونے ہی سے لگايا جا سکتا ہے۔ عالمی اقتصادی بحران کے بعض اثرات کی تلافی ممکن نہيں ہے۔
عالمی بينک اور عالمی مالياتی فنڈ کے ماہرين کا کہنا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی يافتہ ملکوں کو چاہيے کہ وہ مزيد امداد کا سلسلہ جاری رکھيں اور منصفانہ عالمی تجارت کے انتظامات کريں۔ عالمی بينک اور عالمی مالياتی فنڈ کو ترقی پذير اور ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک کی مدد کی کوششوں کو دگنا کردينے کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ صرف غريب ملکوں ہی کو نہيں بلکہ امير ممالک کو بھی ہوگا کيونکہ ترقی پذير ملکوں ميں اقتصادی نمو سے وہاں منڈياں پيدا ہوں گی، جن ميں صنعتی ممالک اپنی مصنوعات فروخت کر سکيں گے۔ اس طرح اگر اگلے برسوں ميں غريب ممالک نے ترقی کی تو اس کا فائدہ دونوں ہی کو ہوگا۔
رپورٹ: کرسٹينا بیرگمن/ شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک