عالمی مالیاتی ادارے کی تخلیق کا مقصد عالمی اقتصادی ترقی اور غربت کا خاتمہ تھا۔ لیکن اب یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ آیا یہ ادارہ ریاستوں کو استحکام کی طرف گامزن کر رہا ہے یا ان کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
اشتہار
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی خاطر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) وجود میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد اقتصادی طور پر تباہ ہونے والے ممالک کو عارضی قرضے فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنی اپنی معیشتوں کو بہتر بنا سکیں۔
ساتھ ہی یہ لازمی تھا کہ وہ ان قرضوں کو ایک نظام الاوقات کے تحت واپس بھی کریں۔ امید تھی کہ عالمی مالیاتی ادارہ عالمی سطح پر اقتصادی خوشحالی کا باعث بنے گا اور تجارتی امور میں بہتری پیدا ہو گی۔ اس حکمت عملی کے تحت یہ جزو بھی اہم تھا کہ یوں عالمی سطح پر غربت میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
اس مالیاتی ادارے کو معرض وجود میں آئے چوہتر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس ادارے کی حامیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرامز کے تحت سرمائے کی فراہمی اور ان مراعات کو حاصل کرنے والے ممالک سے اصلاحات کے مطالبات کے باعث زیادہ سخت اقتصادی مشکلات سے بچنے میں مدد مل رہی ہے۔
تاہم ناقدین کے مطابق آئی ایم ایف کے پروگرامز مالی مشکلات کے شکار ممالک کو اس ادارے پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کے عوام میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے۔
دنیا کے امیر ترین ممالک - ٹاپ ٹین
قوت خرید میں مساوات (پی پی پی) کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک کے بارے میں تفصیلات اس پکچر گیلری میں دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Ota
۱۔ چین
رواں برس برس اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق قوت خرید میں مساوات کے اعتبار سے جی ڈی پی کو پیش نظر رکھتے ہوئے 25.24 ٹریلین امریکی ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر چین ہے۔ سن 2017 کے مقابلے میں چینی اقتصادی نمو نو فیصد رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
۲۔ امریکا
اسی معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو امریکا 20.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.3 فیصد رہی۔
تصویر: Getty Images/J. Swensen
۳۔ بھارت
10.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ بھارت اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں 9.8 فیصد زائد رہی۔
تصویر: AP
۴۔ جاپان
5.6 ٹریلین ڈالر اور پچھلے سال کے مقابلے میں جی ڈی پی میں اضافے کی ساڑھے تین فیصد شرح کے ساتھ جاپان چوتھے نمبر پر رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka
۵۔ جرمنی
عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق سن 2018 اپریل تک جرمنی کا پی پی پی (Purchasing Power Parity) کے اعتبار سے جی ڈی پی 4.37 ٹریلین ڈالر جب کہ اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح پانچ فیصد کے قریب رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
۶۔ روس
روس اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں مساواتی قوت خرید کے اعتبار سے جی ڈی پی 4.17 ٹریلین ڈالر رہی جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ترقی ہوئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Smirnov
۷۔ انڈونیشیا
ساتویں نمبر پر انڈونیشیا رہا جہاں گزشتہ برس کے مقابلے میں ترقی کی شرح 7.7 فیصد زیادہ رہی جب کہ جی ڈی پی 3.5 ٹریلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Siregar
۸۔ برازیل
برازیل کا شمار بھی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں ہوتا ہے 3.39 ٹریلین ڈالر اور 4.6 فیصد ترقی کی سالانہ شرح کے ساتھ برازیل آئی ایم ایف کے مطابق دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
۹۔ برطانیہ
اس برس کی فہرست میں برطانیہ 3.03 ٹریلین ڈالر پی پی پی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا میں نویں نمبر پر رہا۔ ترقی کی سالانہ شرح 3.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/empics/K. O'Connor
۱۰۔ فرانس
2.96 ٹریلین ڈالر کے ساتھ فرانس ٹاپ ٹین میں جگہ بنانے والا تیسرا یورپی ملک ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں فرانس میں اقتصادی ترقی کی اس برس شرح 4.4 فیصد تھی۔
تصویر: Reuters/A. Bernstein
۲۵۔ پاکستان
آئی ایم ایف کی اس فہرست کے مطابق پاکستان عالمی درجہ بندی میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ قوت خرید میں برابری کے اعتبار سے پاکستانی جی ڈی پی کا تخمینہ 1.14 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی اس اعتبار سے کی گئی درجہ بندی میں پاکستان ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات سے آگے ہے جو بالترتیب چھبیسویں اور تینتیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Zaklin
11 تصاویر1 | 11
محققین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرامز قدرے کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اس ادارے کے مشرق سطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر محسن ایس خان کے مطابق 1973ء تا سن 1988 مجموعی طور پر 69 ممالک کو قلیل المدتی یا طویل المدتی مالیاتی پیکجز دیے گئے، جن میں زیادہ تر پروگرامز کامیاب ہوئے۔ ان میں اسّی کی دہائی میں بالخصوص میکسیکو، بھارت اور کینیا کی مثال دی جاتی ہے۔
نوّے کی دہائی کے اواخر میں ایشیا کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے اقتصادی حالات میں مندی بنی۔ اس کی وجہ ان ممالک کا عالمی مالیاتی ادارے پر ضرورت سے زیادہ انحصار بنا تھا۔
اس صورتحال میں آئی ایم ایف نے ان ممالک کو صرف اس صورت میں ہنگامی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی اپنی پالیسیوں میں اسٹریکچرل (ساختیاتی) تبدیلیاں لائیں۔ ان ممالک کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کر لیں۔ ان ممالک نے آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط منظور کرتے ہوئے امدادی رقوم تو حاصل کر لیں لیکن اس کے نتیجے میں ان ممالک کی اقتصادی نمو کی رفتار میں کمی ہوئی اور لوگ غربت کا شکار ہوئے۔
پاکستان کا اقتصادی مسئلہ اور ممکنہ حل
پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ اقتصادیات کی زبوں حالی کا بھی ہے۔ پاکستان ریاست مالی ادائیگیوں کے توازن کے ایک بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر نو بلین ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ فوری بحرانی صورتحال سے بچا جا سکے۔ وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت اس مالی بحران کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر عائد کرتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے آئی ایم ایف پر اپنا انحصار کم کر دے گی۔ کئی ناقدین کے مطابق اسلام آباد میں بننے والی حکومت کو ایسا کرنے کے لیے ’انقلابی اقدامات‘ کرنا ہوں گے، جو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ممکن نظر نہیں آتے۔
پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے اپنے لیے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے 2013ء میں لیے گئے تھے۔ تب اسلام آباد نے اسی طرح کے ایک بحران کو روکنے کے لیے، جس طرح کے بحران کا اب پھر خطرہ ہے، آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔