اقوام متحدہ کی ماحولیاتی نقصان کی ڈیل
27 نومبر 2022اتوار کے روز اقوام عالم نے مصری شہر شرم الشیخ میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 27 میں زمینی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی امداد کے لیے ایکعالمی فنڈ کے قیام پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ تیس برس قبل اقوام متحدہ کی زیرنگرانی شروع ہونے والے ماحولیاتی مذاکرات کے آغاز سے اب تک اس پیش رفت کو اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔
عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے اختتامی اعلامیے کے اہم نکات
کیا ماحولیاتی کارکن احتجاج کی قانونی حدیں پھلانگ رہے ہیں؟
اس فنڈ کا قیام صنعتی ممالک کے اس اعترافکے مترادف بھی ہے کہ وہ کسی حد تک ماحولیاتی تبدیلیوں کے وقوع پزیر ہونے کے ذمہ داری ہیں۔ اس فنڈ کے ذریعے شدید موسمی حالات و سانحات مثلاﹰ بارشوں، سیلابوں، گرمی کی لہر اور طوفانوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کی جائے گی۔
عالمی فنڈ کی ضرورت
ایک طرف مختلف عالمی رہنما، ماحول دوست تنظیمیں اور کارکنان اس فنڈ کے قیام کے منصوبے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، تو دوسری جانب یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ یہ فنڈ کام کیسے کرے گا اور اس کے طویل المدتی اثرات کیا ہوں گے۔ عالمی ماحولیاتی مذاکرات میں 'لاس اینڈ ڈیمیج‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور یہی اس فنڈ کے قیام کے ساتھ نتھی ہے۔
فنڈ کی تاریخ
نوے کی دہائی کے آغاز پر نشیبی ساحلوں کے حامل چھوٹے جزائر کے اتحاد نے اقوام متحدہ میں اس فنڈ کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اقوام متحدہ نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی فریم ورک کی ڈیل طے کی تھی۔ تب سے اقوام متحدہ کے تمام تر ماحولیاتی اجلاسوں میں یہ فنڈ زیربحث رہا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے مسلسل مطالبات کے باوجود ترقی یافتہ اقوام ایسے کسی فنڈ کے قیام کو مسلسل ٹالتی رہیں تاہم کوپ 27 میں یہ ایک مرکزی نکتہ بن کر ابھرا۔
سرمایہ کون فراہم کرے گا؟
اس فنڈ میں ابتدائی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور دیگر پرائیویٹ اور پبلک ذرائع سے سرمایہ حاصل کیا جائے گا جب کہ اس میں اہم اقتصادی قوتوں کو شامل ہونے اور سرمایہ فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس معاہدے کی حتمی دستاویز میں درج ہے کہ 'فنڈنگ کے ذرائع کی شناخت اور توسیع‘ کی جائے گی۔ اسی نکتے کو یورپی یونین، امریکہ اور دیگر فریق مسلسل ٹالتے رہے ہیں۔ اس شق سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایسے ممالک جو زیادہ آلودگی پیدا کر رہے ہیں، انہیں اس مد میں زیادہ سرمایہ فراہم کرنا ہو گا۔
ام مذاکرات میں چین کا موقف تھا کہ اس نئے فنڈ کے لیے سرمایہ ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کیا جائے، تاہم چین ماضی میں رضاکارانہ بنیادوں پر ماحولیاتی فنڈز میں سرمایہ دیتا رہا ہے۔ جب سابق امریکی صدر باراک اوباما نے سن 2014 میں گرین کلائمٹ فنڈ کے قیام پر تین ارب ڈالر سرمایے کا اعلان کیا، تو چین نے اس کے لیے تین اعشاریہ ایک ارب ڈالر فراہم کیے۔ اگلے ایک برس میں اس فنڈ سے متعلق کمیٹی سرمایے کے دیگر ذرائع کو حتمی شکل دے گی۔
سرمایہ کسے ملے گا؟
اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ یہ فنڈ ‘ترقی پزیر ممالک، خصوصاﹰ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے زیادہ متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے استعمال ہو گا۔
تاہم اس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے متاثرہ درمیانی آمدنی والے ممالک کی مدد کے لیے بھی کچھ جگہ چھوڑی گئی ہے۔ حالیہ سیلابوں سے بری طرح متاثرہ پاکستان اور سمندری طوفان سے حال ہی میں نمٹنے والے کیوبا بھی اس فنڈ سے سرمایے کے حصول کے اہل ہوں گے۔
ع ت، ش ر (اے ایف پی، اے پی)