1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی معیشت کی بحالی ایک طویل سفر ہو گا، او ای سی ڈی

10 جون 2023

تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی او ای سی ڈی نے کہا ہے کہ تازہ ترین اقتصادی اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ عالمی معیشت میں بحالی کا عمل ایک طویل سفر ہو گا تاہم اس حوالے سے توقعات میں ماضی کی نسبت قدرے اضافہ ہوا ہے۔

Frankreich | OECD Hauptsitz in Paris
تصویر: Francois Mori/AP Photo/picture alliance

اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے حال ہی میں عالمیمعیشت  میں شرح نمو کے بارے میں قدرے زیادہ پرامید نقطہ نظر پیش کیا۔ توانائی کی قیمتوں میں کمی، سپلائی چین میں رکاوٹوں میں نرمی اور عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے توقع سے زیادہ جلدی دوبارہ کھلے پن کے مظاہرے نے عالمی معیشت کی بحالی میں اضافہ کیا۔ تاہم عالمی معیشت پر  اب بھی سود کی بلند شرح اور افراط زر دونوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

پیرس میں قائم اس تنظیم نے مارچ میں اپنی ایک رپورٹ میں عالمی معیشت میں 2.6 فیصد کے مقابلے میں 2.7 فیصد کی شرح سے اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کی تھی۔

تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ 2020ء کے کورونا کی عالمی وبا کے دور کے استثنا کے علاوہ بین الاقوامی اقتصادی ترقی کی یہ عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے سب سے کم سالانہ شرح ہو گی۔

کورونا وبا کے دوران دنیا بھر میں درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ بُری طرح متاثر ہواتصویر: PantherMedia/Rui Vale de Sousa/IMAGO

اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل ماتھیاس کورمن کے بقول، ''عالمیمعیشت  میں متوقع بحالی اور مارچ میں ہمارے عبوری تخمینوں سے ظاہر ہونے والے اعداد و شمار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ تب بھی یہ صورت حال قدرے زیادہ پرامید نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کا سبب بنی تھی۔ اسی کی پیش گوئی کی گئی تھی اور اب ہم اسے عملی طور پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

پاکستان کی معاشی صورتحال ’برین ڈرین‘ میں اضافے کا سبب

01:56

This browser does not support the video element.

او ای سی ڈی نے  امریکہ، چین اور یورو زون کے لیے اپنی پیش گوئیوں کو بھی اپ گریڈ کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ ترقی مستحکم ہونے کے باوجود ایک نازک معاملہ ہے۔

اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے مزید کہا ہے کہ بنیادی افراط زر، جس میں توانائی اور اشیائے خوراک کی غیر مستحکم قیمتیں شامل نہیں ہیں، ماضی کی توقعات سے زیادہ ہے۔ یہ پہلو مرکزی بینکوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ صارفین کی طرف سے قرض لینے کے اخراجات میں مزید اضافہ کریں۔ دوسری طرف ان بینکوں نے پہلے ہی اپنی شرح سود میں بھی اضافہ کر رکھا ہے تاکہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کی کوششیں کی جا سکیں۔

امریکہ سمیت تمام دنیا میں کارباوباری منڈیوں اور اسٹاک ایکسچینج میں ہلچل مچی رہتی ہےتصویر: Allie Joseph/New York Stock Exchange/AP Photo/picture alliance

او ای سی ڈی کی تازہ رپورٹ میں ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے متنبہ بھی کیا گیا ہے کہ قرضوں کی بہت بلند سطح والے ممالک اور اداروں کے لیے مقابلتاﹰ غیر محفوظ ہو جانے کے خطرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ صارفین کو قرضے دینے والے امریکہ کے ایک بڑے علاقائی مالیاتی ادارے سیلیکون ویلی بینک یا SVB کی ناکامی کا ذمے دار بھی ایسی ہی بہت بلند شرحوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔

تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے سیکرٹری جنرل کورمن کے مطابق، ''پالیسی سازوں کو مالیاتی اقدامات کو ہدف بنانے اور وسیع مالی امداد کو کم کرنے کے لیے افراط زر کو مستقل طور پر نیچے لانا چاہیے۔‘‘

ک م / م م (رچرڈ کونر)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں