عالمی مقابلہ حُسن بالی میں ممکن نہیں
10 ستمبر 2013انڈونیشیا کے مشہور سیاحتی جزیرہ بالی میں رواں مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو عالمی مقابلہ حسن کا فائنل راؤنڈ منعقد کیا جانا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کا انعقاد مشکل تر ہوگیا ہے۔ بالی کے بنیاد پرست مسلمان اس مقابلہ حسن کی منسوخی کے لیے اپنے مظاہروں کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب انڈونیشیا کی حکومت نے مقابلہ حُسن کے آخری اور حتمی راؤنڈ کو جزیرہ بالی سے کسی اور مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ منتظمین بھی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اس مقابلے کا انعقاد مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جزیرہ بالی کی اکثریتی آبادی ہندو مذہب کی ماننے والی ہے لیکن سخت عقیدے کے حامل مسلمان اس مقابلے کی منسوخی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بالی کے سیاحتی مقام میں مقابلہ حُسن کا انتظام کرنے والے گروپ ایم این سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نانا پُترا کا کہنا ہے کہ روز بروز بالی کی صورت حال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب بالی ہی میں ایشیا پیسفک اکنامک فورم کا سربراہ اجلاس بھی اوائل اکتوبر میں ہو گا۔ اس سربراہ اجلاس کے لیے بےشمار مختلف النوعیت وفود ستمبر کے آخری ہفتے سے پہنچنا شروع ہو جائیں گے اور ان وفود میں شامل افراد کی تعداد ہزاروں میں خیال کی جاتی ہے۔
انڈونیشیا کی انتہا پسند تنظیم حزب التحریر کے تقریباً سات سو کارکنوں نے آج منگل کے روز بھی مغربی جاوا کے شہر بنڈونگ میں ایک مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ صوبائی گورنر کے دفتر کے سامنے کیا گیا۔ حزب التحریر کے کارکن نعرے لگا رہے تھے اور بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ بینروں پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا کہ وہ مغربی جاوا میں مقابلہ حسن کا انعقاد نہیں چاہتے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مذہبی تنظیم کے ایک سرکردہ لیڈر اسپ سُدراجاٹ کا کہنا تھا کہ صرف مغربی جاوا سے مقابلے کی منتقلی نہیں چاہتے بلکہ انڈونیشیا میں ایسے مقابلوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
دوسری جانب حکومتی اہلکاروں نے اسی ہفتے کو کہا تھا کہ تین ہفتوں پر محیط یہ عالمی مقابلہ حُسن بالی ہی میں منعقد ہو گا۔ اس مقابلے کے انعقاد کے خلاف کئی دنوں سے انتہا پسند مسلمان مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مقابلہ حُسن کے کچھ ابتدائی راؤنڈز دارالحکومت جکارتہ میں منعقد کروائے جائیں اور حتمی مقابلہ مغربی جاوا کے وسیع و عریض کنوینشن سینٹر میں منعقد کروایا جائے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ انڈونیشیا میں انتہا پسند بتدریج قوت پکڑتے جا رہے ہیں۔
ادھر منتظم ادارے کی چیف ایگزیکٹو نانا پترا کا کہنا ہے کہ نہ تو ان کو حکومتی فیصلے میں شریک کیا گیا اور نہ ہی اس سے باقاعدہ طور پر آگاہ کیا گیا۔ پترا نے اس حکومتی فیصلے پر افسوس کا بھی اظہار کیا۔ انتظامی ادارے ایم این سی کی سربراہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران کسی وقت ان کا وفد حکومتی اہلکاروں سے ملاقات کرے گا۔ نانا پترا یہ بھی واضح کیا کہ ان کے پاس مقابلہ حُسن کے انعقاد کا متبادل پلان بھی ہے لیکن وہ اس پر مصر بھی ہیں کہ وہ مغربی جاوا سے منتقل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔