عالمی وبا نے ایک طرف تو لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا ہے تو دوسری جانب عالمی اقتصادیات پر بھی نہایت منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگلا برس بلکہ اگلے کئی برس یہ عالمی وبا ہماری زندگیوں کو کس طرح متاثر کرے گی؟
اشتہار
یوں سمجھیے کہ اس وقت جون 2021 ء ہے اور دنیا میں عالمی وبا کو ڈیڑھ برس ہو چکا ہے۔ وائرس تاہم اب بھی پھیل رہا ہے۔ لاک ڈاؤنز اب ایک عام سی بات بن چکے ہیں۔ ایک ویکسین موجود ہے، جو چھ ماہ کے لیے آپ کو اس وائرس سے تحفظ دے سکتی ہے۔ مگر بین الاقوامی سطح پر اس کی تقسیم سست ہے۔ اب تک کئی سو ملین افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ بیان کردہ صورت حال محققین کی نظر میں ہے۔ ماہرین وائرس کورونا کی وبا کے اثرات سے مختصر اور طویل دورانیے سے متعلق پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ مختلف ماہرین کی پیش گوئیاں اور اندازے مختلف ہیں، مگر دو باتوں پر سب کا اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ کورونا وائرس اب یہیں ہے اور دوسرا مستقبل کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ یعنی فی الحال یہ تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا کورونا وائرس کا شکار ہو جانے والے اس وائرس سے امیون ہوتے ہیں یا نہیں۔ یا کیا موسمی حالات اس وائرس کے پھیلاؤ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ افراد یا حکومتوں کے رویے اور فیصلے کیا کچھ تبدیل کر سکتے ہیں؟
لندن اسکول اف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے متعدی بیماری سے متعلق ماہر روزالنڈ ایگو کے مطابق، ’’بہت سی چیزیں واضح ہو رہی ہیں اور بہت سی چیزیں غیرواضح ہیں۔ ہمیں بالکل نہیں پتا کہ کیا کچھ ہونے والا ہے۔‘‘
ہوائی سفر کی اب ممکنہ شکل کیا ہو گی؟
کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو اور زندگی کے قریب ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ اسی سبب ہوائی سفر بھی ابھی تک شدید متاثر ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ مستقبل میں ہوائی سفر ممکنہ طور پر کس طرح ہو گا۔
تصویر: Aviointeriors
بجٹ ایئرلائنز
بجٹ ایئر لائنز جو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں وہ خاص طور پر کورونا لاک ڈاؤن کے سبب تحفظات کا شکار ہیں۔ ایسی تمام ایئرلائنز جن کے زیادہ تر جہاز چند منٹ ہی زمین پر گزارتے تھے اور پھر مسافروں کو لے کر محو پرواز ہوجاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/Airbus
گراؤنڈ پر زیادہ وقت
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد جب ایسے ہوائی جہاز اڑنا شروع کریں گے تو انہیں دو پروازوں کے درمیان اب زیادہ دیر تک گراؤنڈ پر رہنا پڑے گا۔ طویل فاصلوں کی دو پروازوں کے درمیان یہ لازمی ہو گا کہ اس دوران جہاز کو جراثیم کش مصنوعات سے مکمل طور پر صاف کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.A.Q. Perez
سست رفتار بورڈنگ
سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے سبب مسافروں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا ہو گا اور اسی سبب بورڈنگ کا عمل بھی سست رہے گا اور لوگوں کو زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑے گا۔
تصویر: imago images/F. Sorge
سیٹوں کے درمیان فاصلہ
ابھی تک یہ بات ثابت نہیں ہوا کہ دو سیٹوں کے درمیان ایک سیٹ خالی چھوڑنے سے کورونا کے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ جرمن ایئرلائن لفتھانزا جو یورو ونگز کی بھی مالک ہے، ابھی تک اس طرح کی بُکنگ فراہم نہیں کر رہی۔ ایک اور بجٹ ایئرلائن ایزی جیٹ البتہ ابتدائی طور پر اس سہولت کے ساتھ بُکنگ شروع کرنا چاہتی ہے کہ ہر دو مسافروں کے درمیان ایک سیٹ خالی ہو گی۔
ایوی ایشن کنسلٹنگ کمپنی ’’سمپلیفائنگ‘‘ کا خیال ہے کہ دیگر حفاظتی اقدامات کے علاوہ مسافروں کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ چیک اِن سے قبل اپنا امیونٹی پاسپورٹ بھی اپ لوڈ کریں جس میں یہ درج ہو گا کہ آپ کے جسم میں اینٹی باڈیز یا کورونا کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder
ایئرپورٹس پر طویل وقت
مسافروں کو ممکنہ طور پر اپنی پرواز سے چار گھنٹے قبل ایئرپورٹ پر پہنچنا ہو گا۔ انہیں ممکنہ طور پر ڈس انفیکٹینٹس ٹنل سے بھی گزرنا ہو گا اور چیک ان ایریا میں داخلے سے قبل ایسے اسکینرز میں سے بھی جو ان کے جسم کا درجہ حرارت نوٹ کریں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
جہاز میں بھی ماسک کا استعمال
جرمنی ایئرلائن لابی BDL نے تجویز دی ہے کہ جہاز میں سوار تمام مسافروں کے لیے ناک اور منہ پر ماسک پہنا لازمی ہو سکتا ہے۔ لفتھانزا پہلے ہی اسے لازمی قرار دے چکی ہے۔ جیٹ بلو ایئرلائن بھی امریکا اور کینڈا میں دوران پرواز ماسک پہنے رکھنا لازمی قرار دے چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
سامان کی بھی پریشانی
یہ بھی ممکن ہے کہ مسافروں کے ساتھ ساتھ مسافروں کے سامان کو الٹرا وائلٹ شعاؤں کے ذریعے ڈس انفیکٹ یا جراثیم وغیرہ سے پاک کیا جائے۔ لینڈنگ کے بعد بھی کنویئر بیلٹ پر رکھے جانے سے قبل اس سامان کو دوبارہ جراثیم سے پاک کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Stolyarova
مختلف طرح کی سیٹیں
جہازوں کی سیٹیں بنانے والے مختلف طرح کی سیٹیں متعارف کرا رہے ہیں۔ اٹلی کی ایک کمپنی نے ’گلاس سیف‘ ڈیزائن متعارف کرایا ہے جس میں مسافروں کے کندھوں سے ان کے سروں کے درمیان ایک شیشہ لگا ہو گا جو دوران پرواز مسافروں کو ایک دوسرے سے جدا رکھے گا۔
تصویر: Aviointeriors
کارگو کیبن کا ڈیزان
ایک ایشیائی کمپنی ’ہیکو‘ نے تجویز دی ہے کہ مسافر کیبن کے اندر ہی کارگو باکس بھی بنا دیے جائیں۔ ابھی تک کسی بھی ایئرلائن نے اس طرح کے انتظام کے لیے کوئی آرڈر نہیں دیا۔ اس وقت مسافر سیٹوں کی نسبت سامان کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Haeco
فضائی میزبانوں کے لیے بھی نیا تجربہ
کیبن کریو یا فضائی میزبان بھی دوران پرواز خصوصی لباس زیب تن کریں گے اور ساتھ ہی وہ دستانے اور چہرے پر ماسک کا استعمال بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ انہیں ہر نصف گھنٹے بعد اپنے ہاتھوں وغیرہ کو سینیٹائز کرنا ہو گا۔ بزنس اور فرسٹ کلاس کے لیے محفوظ طریقے سے سیل شدہ کھانے دستیاب ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Karacan
11 تصاویر1 | 11
یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے بیماریوں سے متعلق ماہر جوزیف وو کہتے ہیں ،’’مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ ہم سماجی رابطوں میں کتنی تیزی لاتے ہیں اور ایسے میں کیسی احتیاطی تدابیر کرتے ہیں۔‘‘
متعدد ممالک میں کامیاب لاک ڈاؤن کے عمدہ نتائج نکلتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ سماجی رابطوں میں اگر رویوں پر توجہ دی جائے، تو اس وبا کا پھیلاؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے ضوابط پر سبھی لوگ عمل نہیں کرتے۔
آج 21 اکتوبر 2020 تک دنیا بھر میں اکتالیس ملین افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد بھی گیارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب یورپ میں اس وبا کی دوسری لہر دیکھی جا رہی ہے اور ایک مرتبہ پھر کئی ممالک نے اپنے اپنے ہاں نئی پابندیاں نافذ کی ہیں۔ فرانس اور بیلجیم میں تو رات کے وقت کچھ دیر کے لیے کرفیو تک لگایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں بھی شدید متاثرہ علاقوں کو لاک کیا جا رہا ہے۔