1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم الارض، زمین کی حفاظت سب کی یکساں ذمہ داری

21 اپریل 2021

گزشتہ51 سال سے دنیا بھر میں 22 اپریل کو "ارتھ ڈے" منایا جاتا ہے تاکہ زمین کو درپیش ماحولیاتی خطرات کی آگاہی پیدا کی جا سکے۔ اس برس یومِ ارض کا تھیم "ری سٹورنگ ارتھ" یا زمین کے قدرتی ماحول کی بازیابی ہے۔

Symbolbild Klimawandel
تصویر: AFP/Getty Images/O. Sierra

دنیا بھر میں سن 1970 سے ہر برس "یوم الارض" منایا جاتا ہے۔ زمین کے قدرتی سسٹم کو درپیش خطرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کا آغاز سن 1962 میں ماڈرن انوائرمینٹل موومنٹ سے ہوا تھا جب اقوام عالم اندھا دھند صنعتیں قائم کر رہی تھی۔ اس باعث عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور بڑھتی ہوئی موسمی تبدیلیوں کے باعث زمین کئی علاقے متاثر ہونے لگے۔ اس مقصد کے لیے ہر برس یوم الارض منایا جانے لگا۔ رواں برس کے ارتھ ڈے کا موضوع " زمین کے قدرتی نظام کی بازیابی" ہے۔

ارتھ ڈے: پلاسٹک سے پاک سیارہ زمین

کرۂ ارض کو کون سے شدید خطرات کا سامنا ہے؟

بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ  حرارت کے باعث ارضیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پاکستان جیولوجیکل سروے آف  پاکستان کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز ماہر ارضیات  ڈاکٹر نیئر ضیغم عالم  نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ارضیات بنیادی طور پر زمین کی ساخت کے مطالعے کا علم ہے مگر اس کا گہرائی میں جائزہ لینے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے اس کے قدرتی نظام کو کس حد تک  نقصان پہنچا ہے۔

ماحول پسند تنظیمیں اور کارکن زمین کے بچاؤ کی فعال تحریکیں جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/R.Sachar

زمین کا ارضیاتی خد و خال

زمین کے اوپری ٹھوس تہہ کو  لیتھو سفیئر کہا جاتا ہے جس میں زمین کے جغرافیائی اور ارضیاتی خد وخال شامل ہیں جو زمین کی تخلیق کے وقت تشکیل پائے۔ اسی طرح کرۂ ارض کو  فضا میں تقریبا  560 کلومیٹر کی بلندی تک گیسوں کے کرے نے گھیر رکھا ہے، یہی اس کا قدرتی ماحول ہے۔ 

’یوم ارض‘ اس مرتبہ خاص کیوں ہے؟

لیتھو سفیئر اور سٹیریٹو سفیئر کے درمیانی حصے کو  بایو سفیئر کہا  جاتا ہے جس میں انسان اور دیگر جاندار حیات آباد ہیں۔ جبکہ چوتھا  کرہ "ہائیڈرو سفیئر" ہے جو ٹھوس ( برف) اور مائع ( سمندر، دریا ،جھیلیں وغیرہ) پر مشتمل ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک میں تبدیلی سب پر یکساں اثر انداز ہوتی ہے، مثال کے طور پر عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے  بایو سفیئر میں جاندار حیات اور لیتھو سفیئر میں زیر زمین چٹانیں اور دیگر ارضیاتی حرکات براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔

مناسب اقدامات کی ضرورت

ڈاکٹر نیئر کا کہنا تھا کہ، ''انسان نے اپنی ضروری اور غیر ضروری سرگرمیوں سے زمین کے قدرتی نظام پر گہرے منفی اثرات مرتب کئے جن کا خمیازہ ہم آج زلزلوں، سمندری طوفانوں، خشک سالی ، وائلڈ فائرز اور قحط وغیرہ  جیسی قدرتی آفات کی صورت میں بھگت رہے ہیں ۔اور اگر مناسب اقدامات نا اٹھائے گئے تو مستقبل میں قدرتی آفات کی شرح مزید بڑھے گی۔‘‘

نیدرلینڈز کے رقبے کے برابر بارانی جنگلات جلا یا کاٹ دیے گئے

یوم ارض 2021  پر کون سے اقدامات  نا گزیر ہیں ؟

ڈاکٹر قاسم  جان بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ ارضیات ہیں۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ، '' گلوبل وارمنگ اور اس سے ہونے والی موسمی تبدیلیوں سے کرۂ ارض کا ہر خطہ براہ راست متاثر ہوا ہے۔ ایکو سسٹم  میں ہو نے والی تبدیلیوں  سے نا صرف انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ سمندری حیات،  نباتات اور وائلڈ لائف  بھی شدید خطرات کی زد پر ہیں اور بہت سے جانور جو صدیوں سے زمین پر آباد تھے اب ان کی نسل  معدوم ہو چکی ہے۔‘‘

ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین پر سمندری طوفانوں، زلزلوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot

بہت سے سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے قدرتی ماحول کو سب سے زیادہ  نقصان زمین سے حاصل شدہ ایندھن (تیل ، گیس، کوئلہ) سے پہنچا ہے۔ اب سد باب کے لئے ضروری ہے دیگر متبادل ایندھن کے ذرائع (شمسی ، حرکی اور جیو تھرمل  توانائی کے ذرائع)  تلاش کرنے  کے علاوہ گرین ہاؤس گیسوں  میں کمی کے لئے عالمی سطح پر اقدامت کئے جائیں۔

اگرچہ پاکستان سبز مکانی یا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ممالک کی فہرست میں پچھلے نمبروں پر ہے لیکن اس کے باوجود لوکل سطح پر بہت سے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں جن میں سر فہرست آبی و سمندری آلودگی اور زمین بردگی پر قابو پانا اور زراعت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں