1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم خواندگی: آج کا پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

7 ستمبر 2018

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان وہ واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جو ایٹمی طاقت بھی ہے۔ لیکن اپنی شرح خواندگی کے حوالے سے ایک دو راہے پر کھڑے پاکستان کی آج تک کی تعلیمی پیش رفت غیر متاثر کن ہے۔

Pakistan Privatschule
تصویر: Reuters/C. Firouz

کئی ماہرین کے مطابق ہفتہ آٹھ ستمبر کو منائے جانے والے خواندگی کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے پاکستانی ریاست، حکومت اور معاشرے کو یہ فوری فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس ملک میں خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق مستقبل بعید میں پاکستان کی اپنے لیے طے کردہ حتمی منزل سو فیصد شرح خواندگی ہونا چاہیے۔

نئی وفاقی حکومت کی کابینہ کے پانچ ستمبر کو ہونے والے ایک اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں یہ منظوری دے دی گئی کہ ملک میں آئندہ یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔ اس نظام کے تحت ملک کے مذہبی تعلیمی مدرسوں کے نصاب کو سرکاری اسکولوں کے تعلیمی نصاب کے ہم پلہ بنا دیا جائے گا۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ اس ہدف کے حصول میں مشکلات ہیں اور اگرچہ پاکستانی آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورت اور اشتراک عمل سے یہ ہدف حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

تصویر: Rohayl Varind

پاکستان کا تعلیمی حوالے سے ایک بہت بڑا مسئلہ اسکول جانے کی عمر کے وہ کروڑوں بچے بچیاں بھی ہیں، جو اسکولوں سے باہر ہیں اور اس وقت مختلف وجوہات کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔ اس بارے میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد عمران خان نے پاکستانی عوام سے اپنے اولین خطاب میں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کی حکومت کروڑوں پاکستانی بچوں کو واپس تعلیمی اداروں میں لانے کے لیے جامع پروگرام ترتیب دے گی۔ اب تک پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کی حکومت نے اس سلسلے میں کیا منصوبہ بندی کی ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک رہنما سید شبلی فراز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ابھی تو نئی حکومت کو اقتدار میں آئے بہت ہی کم عرصہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ تعلیم اور ملکی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے کے لیے عوامی سطح پر شعور و آگہی ناگزیر ہیں۔ اس کے لیے ہم نے کئی منصوبے بنائے ہیں کہ سماجی کارکنوں کی مدد سے عام لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے ہر حال میں اسکولوں میں بھیجیں۔‘‘

پاکستان میں خواندہ شہریوں میں اکثر ایسے افراد کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے، جو بمشکل اردو میں اپنا نام ہی لکھ سکتے ہیں۔ یہ طرز عمل کتنا مناسب ہے اور پاکستان میں خواندگی کی شرح کتنی ہے، اس سوال کے جواب میں شبلی فراز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تو قومی شرح خواندگی قریب ساٹھ فیصد ہے جبکہ خواتین میں یہی شرح تیس فیصد تک ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار اس لیے درست نہیں کہ خواندگی کے تعین کے لیے جو معیارات بنائے گئے ہیں، وہ غیر واضح بھی ہیں اور مکمل طور پر قابل اعتماد بھی نہیں۔ مثال کے طور پر ایسے افراد کا اندراج بھی خواندہ شہریوں کے طور پر کرنا، جو صرف اپنا نام ہی لکھ سکتے ہیں۔‘‘

تصویر: Rohayl Varind

پاکستان میں لازمی بنیادی تعلیم قانونی طور پر ہر بچے کا حق ہے۔ لیکن کیا یہ حق ہر پاکستانی بچے کو مل رہا ہے اور تعلیم پر ملک کے سالانہ بجٹ کا کتنے فیصد حصہ خرچ کیا جاتا ہے؟ یہ سوال جب ڈوئچے ویلے نے پوچھا معروف ماہر اقتصادیات اور تجزیہ نگار اکرم ہوتی سے، تو انہوں نے بتایا، ’’ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں حقیقی شرح خواندگی ستائیس فیصد کے قریب ہے۔ قریب دس برس قبل ملکی بجٹ میں تعلیم کا حصہ دو فیصد تھا۔ پھر گزشتہ برس حکومت نے اعلان کیا کہ تعلیم کے لیے وفاقی بجٹ میں رکھی گئی رقوم تین اعشاریہ چار فیصد کر دی گئی ہیں۔ تعلیمی بجٹ کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک نئے منصوبوں پر اور دوسرا پرانے منصوبے چلاتے رہنے پر۔ ان میں پہلے سے قائم اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں قریب ستر فیصد تعلیمی بجٹ تو تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے، جو باقی بچتا ہے، اس سے نئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔ اتنی تھوڑی رقوم سے آپ پورے ملک میں کس معیار کے کتنے نئے منصوبے شروع کر سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اپنے تعلیمی اداروں سے بچے بچیوں کی ڈراپ آوٹ شرح ہی بہتر نہیں بنا سکے۔‘‘

پاکستان میں مختلف سطحوں پر اور کئی متضاد شکلوں میں کام کرنے والا تعلیمی نظام آج تک ناقص ہی کیوں رہا ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اکرم ہوتی نے کہا، ’’اس غیر تسلی بخش صورت حال کی ذمہ دار ملکی سیاسی قوتیں بھی ہیں اور سول سوسائٹی بھی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت پسندی کا مظاہرہ کرتی ہیں، یہ صورت حال تبدیل ہی نہیں ہوتی کہ ملکی بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے۔ تو جب تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے لیے ضرورت کے مطابق مالی وسائل میسر ہی نہیں ہو ں گے، تو وفاقی یا صوبائی حکومتیں خرچ کیا کریں گی۔ اس عمل میں سول سوسائٹی اس حد تک قصور وار ہے کہ اس کی احتجاجی آواز اتنی بلند ہوتی ہی نہیں کہ حکمران عام شہریوں کو تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں ان کے حقوق دینے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘

تصویر: Rohayl Varind

بنیادی تعلیمی سہولیات کی فراہمی ہر مہذب معاشرے میں کسی بھی بچے کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تعلیمی حوالے سے کتنے بچوں کے حقوق کی نفی کی جا رہی ہے، اس بارے میں ایک انٹرویو میں انسانی حقوق کی معروف کارکن ثمر من اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستانی بچوں کے تعلیم کے بنیادی حق کی نفی ممکن نہیں۔ ہمارے قانون و آئین میں ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے، یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ لیکن عملی طور پر صورت حال یہ ہے، جو بڑی بدقسمتی ہے، کہ بچوں سے گھروں، فیکٹریوں اور سڑکوں پر مزدوری کرائی جاتی ہے۔ پاکستانی دیہات میں تو تعلیمی حوالے سے بچوں کی بہت بڑی تعداد محرومی کا شکار ہے۔ جب تک اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل نہیں کیا جائے گا، نہ تو بچوں کو ان کا حق ملے گا اور نہ ہی پاکستان صحیح معنوں میں ترقی کر سکے گا۔‘‘

پاکستان کے مقابلے میں عشروں بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک میں خواندگی کی شرح پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آزادی کے اکہتر برس بعد بھی پاکستان میں عام شہریوں کی بہت بڑی تعداد ناخواندہ ہے؟ ثمر من اللہ کے مطابق، ’’یہ بات سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو لے لیں۔ اس کے منشور میں آج تک تعلیم کو اتنی اہمیت دی ہی نہیں گئی، جتنی دی جانا چاہیے تھی۔ تو جب تک آپ کسی بڑے اور فوری مسئلے کی شدت کو سمجھیں گے ہی نہیں، اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا کوئی راستہ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘

تصویر: Rohayl Varind

پاکستان کے مختلف حصوں میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو ماضی میں طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے اسکولوں پر کیے جانے والے بے شمار بم دھماکوں سے بھی بہت نقصان پہنچا تھا۔ لیکن کیا ان سینکڑوں تعلیمی اداروں کو، جنہیں دہشت گردی کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا تھا، دوبارہ کھولا جا چکا ہے؟ کیا وہاں بچے بچیوں کا تعلیمی سلسلہ بحال ہو چکا ہے؟ اس پہلو سے اظہار خیال کرتے ہوئے معروف سیاسی تجزیہ نگار منصور اکبر کنڈی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب تک تو یہ کام بھی بہت ہی کم ہوا ہے کہ کوئی جا کر دیکھے یا باقاعدہ تحقیق کی جائے کہ لڑکیوں کے جو اسکول تباہ ہوئے تھے، وہاں اب حالات کیسے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو خوف کی فضا ابھی تک کم نہیں ہوئی۔ ملک کے شمال مغرب میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بچیاں پہلے بڑی تعداد میں اسکولوں میں جاتی تھیں، لیکن اب ان کا سلسلہ تعلیم منقطع ہو چکا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ جب تک ہر طبقے کے پاکستانی شہری کے بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع نہیں ملیں گے، ہمارا ملک ترقی کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ منصور اکبر کنڈی نے کہا کہ جن بچوں کو معاشرہ ان کے حقوق نہیں دیتا، جن کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، وہی بچے آنے والے کل کے مجرم، عسکریت پسند اور دہشت گرد بنتے ہیں۔

تو پھر پاکستان کے تعلیمی حوالے سے ناانصافی اور محرومی کے شکار کئی ملین بچوں کو ان کے جائز حقوق ملنے میں ابھی مزید کتنے برس لگیں گے؟ منصور اکبر کنڈی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ناانصافی کی ذمے دار ریاست ہے۔ اس کے تدارک کے لیے سول سوسائٹی سمیت ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں اور خواتین میں شرح خواندگی تو لڑکوں اور مردوں سے بھی کم ہے۔ اس سماجی ناانصافی کی تلافی میں بھی مہینے نہیں بلکہ سال اور عشرے لگیں گے۔ لیکن اصلاح جتنی جلد شروع کی جائے گی، حال کے علاوہ مستقبل کا نقصان بھی اتنا ہی کم کیا جا سکے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں