پاکستان کے لیجنڈری گٹارنواز عامر ذکی انچاس برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ذکی انتہائی بلند پایہ ساز نواز تھے اور انہوں نے کئی ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔
اشتہار
عامر ذکی کے خاندان کے مطابق وہ جمعہ دو جون کو حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ وہ سن 1968 میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔
ذکی نے کم عمری ہی میں گٹار بجانا شروع کر دیا تھا اور بطور ٹین ایجر اُنہیں اس ساز کے بجانے میں کمال مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ ٹین ایجر عامر ذکی کو سب سے پہلے مشہور گلوکار عالمگیر نے دریافت کیا تھا۔ عالمگیر کو پاکستانی پوپ موسیقی کا ایک اہم گلوکار تصور کیا جاتا تھا۔
عامر ذکی گٹار کے ساتھ عشق کرتے تھے اور انہوں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیےاس ساز میں اپنے مزاج کے مطابق تبدیلیاں بھی پیدا کی۔ یہ اختراعات گٹار کی تاروں میں نہیں بلکہ اُس کی جسامت میں پیدا کی تھیں۔ وہ اپنے اختراع شدہ گٹار کو’فلائنگ وی‘ کا نام دیتے تھے۔ یہ بھی اہم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے دوران اپنے لیے گٹار خود ہی بنایا کرتے تھے۔
چودہ برس کی عمر میں کنسرٹ کے دوران آرکسٹرا کا حصہ ہوتے ہوئے گٹار بجانے والے عامر ذکی نے سن 1990 کی دہائی میں سولو یا اکیلے گٹار کی پرفارمنس دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو جانے والے نعت خوان جنید جمشید کے ساتھ بھی گٹار بجایا تھا۔ جنید جمشید نے بطور گلوکار ایک میوزک بینڈ ’وائٹل سائنز‘ بنا رکھا تھا۔ عامر ذکی نے کچھ عرصے ’وائٹل سائنز‘ میوزک بینڈ کا حصہ رہنے کے بعد اسے خیرباد کہہ دیا تھا۔
اس دہائی میں، سن 1994 میں اُن کا سولو البم ’سِگنیچر‘ ریلیز ہوا اور پاکستانی میوزک مارکیٹ میں اِس البم کو شاندار انداز میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس البم پر انہیں ’ساؤنڈ کرافٹ گولڈ ڈسک‘ نامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ اسی البم میں اُن کا مقبول ترین سازینہ ’میرا پیار‘ شامل تھا۔
پاکستان کے میوزک حلقوں کا خیال ہے کہ عامر ذکی کی گٹار نوازی سے کئی نوجوان متاثر ہوئے ہیں اور وہ جاز اندازِ موسیقی کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کئی ماہرین موسیقی اس پر متفق ہیں کہ جب وہ گٹار کی تاروں کو چھوتے تھے تو اُس سے دل کی نازک رگیں کھچتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔
چھٹا بین الاقوامی تھیٹر اور موسیقی میلہ
کراچی میں ناپا کے زیر اہتمام چھٹا بین الاقوامی تھیٹر اور میوزک فیسٹیول اٹھارہ دن اسٹیج پر رنگ بکھیرنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
تصویر: DW/F.Umbreen
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طلبہ پیش پیش
اس میلے میں شائقین فن نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طالبعلموں کے علاوہ غیر ملکی وفود کی شاندار پرفارمنس کو خاصی پذیرائی دی۔
تصویر: DW/F.Umbreen
جرمن پرفارمنس ’ہوٹل پروپیگنڈا‘
میلے کا آغاز جرمن ڈائریکٹر اور کوریوگرافر بریگل گیوکا کی رقص اور موسیقی پر مبنی پرفارمنس ’ہوٹل پروپیگنڈا‘ سے کیا گیا، جو اپنے منفرد خیال اور پیشکش کے باعث ایک نہایت دلچسپ تجربہ رہا۔
تصویر: DW/F.Umbreen
ہر روز نت نئی پرفارمنسز
اس برس اس میلے میں ڈرامے اور رقص پر منبی 24 پروگرامز پیش کیے گئے۔ ان میں موسیقی کے پروگراموں کی تعداد زیادہ رہی۔
تصویر: DW/F.Umbreen
طلبہ کے لیے سیکھنے کے مواقع
اس بار اس فیسٹیول میں ناپا کے موجودہ اور فارغ التحصیل طالبعلموں کو غیر ملکی طائفوں کے ساتھ پرفارم کرنے کا موقع ملا، جس سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔
تصویر: DW/F.Umbreen
کراچی کی مختلف ثقافتوں کے رنگ
اس برس فیسٹیول میں پانچ ایسی پرفارمنسز بھی پیش کی گئیں، جن میں کراچی کی مختلف زبانوں، ثقافتوں اور موسیقی کے سُروں کا رنگ و عکس شامل تھا۔
تصویر: DW/F.Umbreen
گائیکی کے بھی نمونے
اس بار رقص و موسیقی کے ساتھ ساتھ گائیکی کے نمونے بھی سننے کو ملے۔ اس میلے میں جرمنی اور فلسطین کے علاوہ امریکا، برطانیہ، نیپال اور اٹلی سے آئے ہوئے گروپوں نے بھی اپنی کارکردگی سے حاضرین سے داد سمیٹی۔
تصویر: DW/F.Umbreen
اسٹیج پر سُروں کے رنگ
معروف پاکستانی ستار نواز استاد نفیس احمد کی جانب سے علامہ اقبال کی نظم شکوہ و جواب شکوہ پر کلاسیکل ستار کی پیشکش اس برس پیش کی جانے والی خاص پرفارمنس رہی۔
تصویر: DW/F.Umbreen
’گاؤں میں روشنی‘
پاکستان کی معروف کلاسیکل رقاصہ شیما کرمانی نے تحریک نسواں کے تحت ’گاؤں میں روشنی‘ کے عنوان سے ایک ڈرامہ پیش کیا، جس میں خواتین کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی۔
تصویر: DW/F.Umbreen
اٹھارہ دنوں کی عمدہ کارکردگی کے لیے شکریہ
بین الاقوامی تھیٹر اور میوزک فیسٹیول کے کامیاب انعقاد کے اختتامی دن اس میلے کے منتظمین نے بین الاقوامی پرفارمرز کے ساتھ جاری اس سلسلے کو اگلے برس بھی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
تصویر: DW/F.Umbreen
ایک کامیاب میلہ
اٹھارہ روز تک روزانہ دو پرفارمنسز نے فنکاروں کو بھی خوب مصروف رکھا اور اسٹیج ڈراموں کے شائقین کو بھی بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا۔ میلے کے منتظمین اس سال کے میلے کو بھی بہت کامیاب قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: DW/F.Umbreen
ملکوں ملکوں کے فنکار
یہ پہلی بار تھا کہ پاکستان میں فلسطین سے آئے ایک تھیٹر گروپ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انگریزی اور عربی زبان میں پیش کی گئی فلسطینی پیشکش ’ریٹرن ٹو فلسطین‘ کو حاضرین کی جانب سے بے حد پسند کیا گیا۔
تصویر: DW/F.Umbreen
روایت اور جدت کا امتزاج
رقص، موسیقی اور اسٹیج پرفارمنسز سے سجے اس میلے میں مسلسل اٹھارہ دن تک شائقین کے لیے مختلف اوقات میں ہر روز دو پرفارمنسز پیش کی گئیں۔ ان میں سے ایک پرفارمنس ناپا کے طالبعلوں کی جانب سے پیش کی جاتی رہی اور ایک بین الاقوامی آرٹسٹوں کے لیے مختص ہوتی تھی۔