1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عام آدمی کا کھیل نہیں

2 جولائی 2008

ایک اندازے کے مطابق اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات تک صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں صرف ٹیلی وژن اشتہارات پر آٹھ سو ملین ڈالر خرچ کر دیے جائیں گے۔

باراک اوباما مئی کے اختتام تک اپنی انتخابی مہم کے لیے دو سو چھیاسی ملین ڈالر اکھٹے کر چکے ہیںتصویر: AP

سن دو ہزار چار کی امریکی انتخابی مہم میں ایک اندازے کے مطابق ٹیلی وژن اشتہارات پر پانچ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ مگر رواں سال ہونے والے انتخابات میں تو یہ رقم ایک بلین ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔

دونوں امیدوار انتخابی مہم پر روزانہ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ امریکی ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔تصویر: AP

امریکہ میں نہ صرف یہ کہ جمہوریت ہے بلکہ امریکہ نے یہ زمہ داری بھی اپنے سر لی ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں جمہوریت نہیں ہے وہاں بہر صورت جمہوریت کی شمع روشن کرے گا۔ امریکہ میں آج کل ایک دھوم اور مچی ہوئی ہے کہ پہلی بار ایک سیاہ فام امریکہ کاصدارتی امیدوار منتخب ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ امریکی صدر بھی بن جائے۔ مگر امریکہ کی اس جمہوریت میں کتنے امریکی شہری اور ٹیکس دہندگان باراک اوباما اور جان میک کین کی طرح انتخابی مہم کے دوران صرف اشتہاروں پر اتنا پیسہ خرچ کر سکتے ہیں؟ اور کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ زرائع ابلاغ کے بھر پور استعمال کے بغیر آج کے دور میں کوئی امریکہ کے صدارتی انتخابات جیت سکتا ہے؟

امریکی صدارتی مہم ٹی وی چینلز کے لیے انتہائی منافع بخش ثابت ہو رہی ہےتصویر: AP


مگر امریکی صدارتی امیدواروں کے ساتھ یہ ٹیلی وژن انڈسٹری کے لیے بھی انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی صدارتی مہم کے باعث مجموعی طور پر مقامی ٹی وی چینلز سن دوہزار آٹھ میں اشتہارات پر دو تا تین فیصد اضافی منافع کمائیں گے جب کہ کیبل ٹی وی کے مالکان کے لیے مجموعی منافع میں چھ فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔

سی بی سی نیٹورک کے مطابق اس نے دو ہزار آٹھ کی پہلی سہ ماہی میں صرف سیاسی اشتہاروں کی مد میں تیس ملین ڈالر کمائے ہیں۔ نہ صرف ٹی وی مالکان، انتخابی مہم ان کمپنیوں کے لیے بھی منافع بخش کاروبار ہے جو باراک اوباما اور جان میک کین کی انتخابی مہم کے اخراجات اٹھا رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی امریکی صدارتی امیدوار وں کے اشتہارات پیش کیے جا رہے ہیں۔ یو ٹیوب اس حوالے سے سب سے زیادہ منافع کما رہی ہے۔


باراک اوباما مئی کے اختتام تک اپنی انتخابی مہم کے لیے دو سو چھیاسی ملین ڈالر اکھٹے کر چکے تھے اور نومبر تک وہ مزید کئی سو ملین ڈالر جمع کر لیں گے۔ اوباما نے رپبلکن پارٹی کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاستوں الاسکا، مونٹینا اور انڈیانا میں پہلے ہی سے مختلف ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر نشریاتی وقت خرید لیا ہے۔ دونوں امیدوار انتخابی مہم پر روزانہ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ امریکی ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں