عام شہری کو دھمکانے والے برطانوی وزیر کو استعفیٰ دینا پڑ گیا
4 مئی 2020
برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن کی کابینہ میں بین الاقوامی تجارت کے وزیر کونر برنز کو اپنی حیثیت کے غلط استعمال کے باعث استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے ایک کاروباری جھگڑے میں ایک شہری کو دھمکی دی تھی۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ہاؤس آف کامنز کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/empics/House of Commons
اشتہار
کونر برنز قدامت پسند وزیر اعظم بورس جانسن کی کابینہ میں پیر چار مئی تک بین الاقوامی تجارت کے نگران جونیئر وزیر تھے۔ لیکن انہیں اس لیے اپنی حکومتی ذمے داریوں سے مستعفی ہونا پڑ گیا کہ ان کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے ایک کاروباری جھگڑے میں اپنی سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک عام شہری کو دھمکی دی تھی۔
بین الاقوامی تجارت کے جونیئر وزیر کے طور پر کونر برنز کے خلاف چھان بین برطانوی دارالعوام یا ہاؤس آف کامنز کی اسٹینڈرڈز کمیٹی نے کی۔ اس تفتیش کے بعد برنز کے خلاف عائد کردہ الزامات ثابت ہونے پر پارلیمانی کمیٹی نے ان کی پارلیمانی رکنیت بھی ایک ہفتے کے لیے معطل کر دی۔ اس پر اخلاقاﹰ برنز کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا کہ وہ اپنی وزارتی ذمے داریوں سے مستعفی ہو جائیں۔
پارلیمانی اسٹیشنری کا استعمال گلے کا پھندہ بن گیا
کونر برنز ہاؤس آف کامنز کے ایک ایسے رکن ہیں، جن کا تعلق جنوبی انگلینڈ کے ساحلی علاقے بورن ماؤتھ کے پارلیمانی حلقے سے ہے۔ ان کے والد ایک کاروباری شخصیت ہیں، جن کا ایک شخص کے ساتھ قرض کی واپسی سے متعلق ایک جھگڑا چل رہا تھا۔
لندن میں ویسٹ منسٹر کے علاقے میں برطانوی پارلیمان کی عمارتتصویر: picture-alliance/dpa/robertharding
اس معاملے میں کونر برنز نے غلطی یہ کی کہ انہوں نے اس شخص کو ایک خط لکھا اور اس میں دھمکی دی کہ اگر اس نے کونر برنز کے والد کی بات نہ مانی تو وہ یہ معاملہ برطانوی پارلیمان میں اٹھائیں گے۔
ساتھ ہی تب اس وزیر نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ دارالعوام میں جوکچھ بھی کہیں گے، اس کی وجہ سے بعد میں ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جا سکے گی، کیونکہ انہیں منتخب رکن پارلیمان کے طور پر مامونیت حاصل ہے۔
لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے متعلقہ وزیر ایک بات نظر انداز کر گئے تھے۔ وہ ایک عام شہری کو دھمکی دیتے ہوئے اپنی سرکاری حیثیت کا نہ صرف غلط استعمال کر رہے تھے بلکہ اس دھمکی کے لیے انہوں نے جو خط لکھا، اس کے لیے لیٹر ہیڈ اور اسٹیشنری بھی انہوں نے ہاؤس آف کامنز ہی کے استعمال کیے تھے۔
نجی مفادات اور حکومتی فرائض کا تصادم
جس خط کی قیمت کونر برنز کو چار مئی کے روز اپنے استعفے کے ساتھ چکانا پڑی، وہ انہوں نے فروری دو ہزار انیس میں لکھا تھا۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
اس بارے میں ہاؤس آف کامنز کی اسٹینڈرڈز کمیٹی نے سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا، ''مسٹر برنز نے نہ صرف اپنی پارلیمانی حیثیت استعمال کرتے ہوئے ایک عام شہری کو ناجائز دھمکی دی بلکہ ساتھ ہی وہ اپنے نجی مفادات کو اپنی عوامی ذمے داریوں سے علیحدہ رکھنے کے بنیادی ضابطے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔‘‘
ہاؤس آف کامنز کی اسٹینڈرڈز کمشنر کیتھرین اسٹون کے مطابق، ''کونر برنز کا رویہ صرف اراکان پارلیمان کے لیے لازمی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہی نہیں تھا بلکہ اس سے بھی کہیں آگے کی بات۔ اس سے اس عمومی سوچ کو بھی ہوا ملتی ہے کہ اراکان پارلیمان اپنی عوامی حیثیت استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے ذاتی فائدے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اپنے استعفے کے بعد کونر برنز نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا، ''مجھے بڑا افسوس ہے اور میں نے بین الاقوامی تجارت کے وزیر مملکت کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ آئندہ بھی وزیر اعظم بورس جانسن کی 'بھرپور حمایت‘ کرتے رہیں گے۔
م م / ش ح (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔