1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عا لمی فٹ بال کپ ایڈز اور جسم فروشی

2 جون 2010

سنسنی خیز میچز، شاندارماحول اور پرکشش مناظر۔ عالمی کپ کے دوران فٹ بال کے شائقین جنوبی افریقہ سے کچھ ایسی ہی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ لیکن انسانوں کی تجارت اور ایڈز جیسے موضوعات ایک مرتبہ مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

تصویر: AP

نَن میلانی اوکونررکا تعلق جنوبی افریقہ میں کیتھولک کلیسا کے زیر انتظام کام کرنے والی ایک تنظیم سے ہے۔ وہ خاص طور پر انسانوں کی تجارت کے موضوع پرکام کرتی ہیں۔ یہ تجارت کتنی بھیانک اور معاشرہ کے لئےکس قدر نقصان دہ ہے اس کا اندازہ ان کے کمرے میں ٹنگی تصویروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تصویر میں ایک پریشان لڑکی فٹ بال پر بیٹھی ہے جبکہ دوسری تصویر میں ایک ریفری انسانوں کی تجارت کرنے والے شخص کو ریڈ کارڈ دکھا رہا ہے۔ میلانی اوکونرر کہتی ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ فٹ بال کے عالمی کپ کے دوران انسانوں کی تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کا اثر جسم فروشی کے کاروبارپربھی پڑےگا۔ وہ کہتی ہیں کہ انسانوں کی تجارت کا تعلق جسم فروشی اور غیراخلاقی فلموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسے سڑکوں پر زبردستی بھیک منگوانے اور گھروں میں کام کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

خدشہ ہے کہ فٹ بال کے عالمی کپ کے دوران انسانوں کی تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہےتصویر: DW

میلانی اوکونرر کے بقول انہی وجوہات کی بناء پرفٹ بال کے عالمی کپ کے دوران اغواء کے واقعات میں اضافےکا خطرہ بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے نَن میلانی اوکونرر نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کرغلامی کی اس جدید قسم کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف کانفرنسوں کا اہتمام کرتے ہوئے لوگوں کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے۔ اس دوران میلانی کو انسانوں کی تجارت کےنت نئے طریقے اورانداز حیران زدہ کر دیتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اغواء کرنے کے بعد منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے تاکہ انہیں جسم فروشی پر مجبورکیا جا سکے۔ پھرکچھ عرصے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی اور لڑکی کو ان کے پاس لے کر آئیں تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔

جنوبی افریقہ میں اس وقت اس بات پر شدید بحث جاری ہے کہ عالمی مقابلوں کے دوران اس مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے۔ چند سیاستدانوں کا خیال ہے کہ عالمی کپ کے دوران کچھ خصوصی علاقوں میں جسم فروشی کے کاروبار کی اجازت دے دی جائے۔ تاہم سسٹر میلانی اس تجویز کو رد کرتے ہوئے اسے انسانیت کی تذلیل سے عبارت کرتی ہیں۔ جبکہ جنوبی افریقہ میں قومی ایڈز کونسل کے رکن جنید زیدات اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے بقول ایک مطالبہ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ عالمی کپ کے دوران اس گھناؤنے کاروبار پر پابندی عائد کر دی جائے۔ لیکن اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پولیس اور دیگر محکمے مل کر اس سلسلے میں کام کریں گے۔ جسم فروشی ایک حقیقت ہے اوراس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

پولیس اور دیگر محکمے مل کر اس گھناؤنے کاربارو کو روکنے کی کوشش کریں گےتصویر: DW

دوسری جانب اس کاروبار سے سب سے بڑا خطرہ ایڈز میں اضافے کا ہوتا ہے۔ سینتالیس ملین کی آبادی والا یہ ملک گزشتہ کئی برسوں سے اس مرض کے خلاف کوششوں میں مصروف ہے لیکن اس حوالےسے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات اب تک بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ایڈزکے مریضوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ اعداد و شمار بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں کہیں تقریباً چھ ملین افراد کو اس جان لیوا بیماری کا شکار بتایا جاتا ہے تو دوسری جانب یہ رپورٹ بھی ہے کہ پندرہ ملین افراد ایڈز کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ بہرحال مختلف تنظیموں اور اداروں کا خیال ہے کہ عالمی کپ کے دوران انسانوں کی تجارت کے کاروبار میں تیزی آسکتی ہے اوراس صورتحال سے فٹ بال کے شائقین بھی متاتر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : مقبول ملک


ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں