1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عباس اوباما ملاقات: امن کی منزل ابھی دور

آندریاز گورسیوسکی / امجد علی17 مارچ 2014

مشرقِ وُسطیٰ امن مذاکرات کے نئے دور کے لیے طے کردہ مدت رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے کلیدی نکات 29 اپریل تک طے ہو جانے چاہییں تاہم ابھی تک کسی بڑی پیشرفت کی منرل بہت دور نظر آتی ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان 23 مارچ 2013ء کو راملہ میں ہونے والی ملاقات کا ایک منظر
فلسطینی صدر محمود عباس اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان 23 مارچ 2013ء کو راملہ میں ہونے والی ملاقات کا ایک منظرتصویر: Reuters

اسرائیلی اور فلسطینی تین سال کے تعطل کے بعد اُنتیس جولائی 2013ء کو ایک بار پھر ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ تب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مثبت توقعات کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ وہ چند ماہ کے اندر اندر اس تنازعے کے کسی جامع حل پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس حل کے لیے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی مندوب برائے امورِ خارجہ کیتھرین ایشٹن بھی ان تھک کوششیں کر رہی ہیں لیکن ان دونوں کو یروشلم اور راملہ دونوں جانب سے سرد مہری کا سامنا ہے۔

اسرائیل پر امریکا اور یورپی یونین کے بڑھتے دباؤ کے حوالے سے یروشلم کے سینٹر فار پبلک افیئرز کے انسٹیٹیوٹ فار کنٹیمپریری افیئرز کے ڈائریکٹر ایلن بیکر کہتے ہیں:’’جان کیری اور کیتھرین ایشٹن کا طرزِ عمل اسرائیلیوں کی ایک بڑی اکثریت کو ناراض کر رہا ہے۔ بستیوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مسلسل گردان کو اسرائیلی سخت ناپسند کرتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ اس سے کچھ بھی حاصل ہو رہا ہے۔‘‘

فلسطینی اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیاں خالی کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ان بستیوں میں توسیع کے اجازت نامے جاری کر رہا ہےتصویر: AP

فلسطینی اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیاں خالی کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ان بستیوں میں توسیع کے اجازت نامے جاری کر رہا ہے۔ فلسطینی یروشلم کے مشرقی حصے کو اپنی آزاد فلسطینی ریاست کا صدر مقام بنانا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیلیوں کے نزدیک یروشلم اُن کا ناقابل تقسیم دارالحکومت ہے۔ بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت سلامتی کی ضمانتیں بھی طلب کر رہی ہے اور اسرائیل کو بطور ایک یہودی ریاست تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

اردن یونیورسٹی کے تنازعات پر تحقیق کے ماہر حسن المومانی کے مطابق 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اور پھر 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران فرار ہنے پر مجبور ہو جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تو وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق کھو دیں گے۔ المامونی کے مطابق اسرائیل نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ ان چار تا پانچ ملین فلسطینی مہاجرین کی واپسی کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ مزید یہ کہ فلسطینی صدر محمود عباس اس معاملے میں مفاہمانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے یہ یقین دلا چکے ہیں کہ ’ہم اسرائیل کو مہاجرین کے سیلاب میں نہیں ڈبوئیں گے‘۔

فلسطینی صدر محمود عباس اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی 19 فروری 2014ء کو پیرس میں ہونے والی ملاقات کا ایک منظرتصویر: Reuters

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی اتفاقِ رائے کیوں نہیں ہو پا رہا، اس کی ایک بڑی وجہ بتاتے ہوئے یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے پروگرام برائے مشرقِ وُسطیٰ کے ڈائریکٹر ڈینیل لیوی کہتے ہیں:’’سب سے بڑی رکاوٹ یہ سوال ہے کہ کیا اسرائیل اپنا قبضہ اس انداز میں ختم کرے گا کہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام صحیح معنوں میں ممکن بھی ہو سکے؟‘‘

فلسطینیوں کے خیال میں امریکی اسرائیلیوں سے اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک ہونے والی بات چیت کو محض وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔

لیوی کہتے ہیں کہ امن مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے عباس فلسطینی حلقوں میں بھی تنقید کی زَد میں ہیں اور اپنی فتح تحریک کے ساتھ ساتھ عام فلسطینیوں کی جانب سے بھی سخت دباؤ میں ہیں۔ لیوی کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے محمود عباس پر فلسطینیوں کا اعتماد مسلسل کم ہوتا چلا گیا ہے۔

دونوں فریقوں کے درمیان گہری خلیج کے باعث ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ آج وائٹ ہاؤس میں عباس اور صدر اوباما کے درمیان ملاقات کا بھی کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں