عبدالحلیم کو یورپ پہنچنے میں تئیس برس لگے
21 نومبر 2015عبدالحلیم کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ ابھی اس کے بچپن ہی کے دن تھے جب اس کے والدین نے بنگلہ دیش سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1992ء میں وہ پاکستان کے شہر کراچی پہنچا اور اس کا خاندان پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں لالو کھیت کے قریب تین ہٹی نامی علاقے میں آباد ہو گیا۔ تب عبدالحلیم نے کراچی میں سلائی کڑھائی کا کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ 2004ء میں ایک دن اس نے پاکستان سے بھی نقل مکانی کا فیصلہ کر لیا۔
ڈی ڈبلیو نے عبدالحلیم کے ساتھ بات چیت میں اس کی پاکستان سے رخصتی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا، ’’کراچی میں جو بھی اقتدار میں آتا ہے، وہ بنگالیوں کو پریشان ہی کرتا ہے۔ وہاں میری کوئی شناخت نہیں تھی اور کراچی کے حالات بھی ایسے تھے کہ کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کون کسے اور کیوں قتل کر رہا ہے؟‘‘
ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر عبدالحلیم پاکستان سے ایران چلا گیا۔ تہران میں چار ماہ گزارنے کے بعد اسے وہاں بھی اپنا کوئی مستقبل نظر نہ آیا تو وہ ترکی کے سفر پر نکل پڑا۔ ترکی میں چھ ماہ قیام کے بعد جب اسے محسوس ہونے لگا کہ وہاں وہ اچھی زندگی گزار سکتا تھا، تب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آ گیا۔ ترک حکام نے اسے پکڑ کر واپس ایران بھیج دیا۔
عبدالحلیم کے مطابق وہ جانتا تھا کہ ایران میں یقیناﹰ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ مخمصے میں تھا کہ واپس پاکستان چلا جائے یا کسی اور ملک کا رخ کرے۔ 2005ء میں اس نے دوبارہ ترکی کا رخ کیا لیکن اس مرتبہ اس کی منزل ترکی نہیں بلکہ اس سے آگے یونان تھا۔
یونان پہنچ کر اس نے اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کی۔ کراچی میں سیکھا ہوا سلائی کڑھائی کا ہنر کام آیا اور اس نے یونان میں جیکٹیں بنانے کے ایک کارخانے میں کام شروع کر دیا۔ اب اس کی زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی تھی۔ لیکن دس سال یونان میں قیام کے باجود اسے وہاں رہائش کے حوالے سے کوئی قانونی حیثیت نہ مل سکی تھی۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ یونان میں بھی حالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی یونان آمد کے باعث وہاں روزگار کے مواقع کم ہونا شروع ہو گئے۔ عبدالحلیم کا کہنا ہے، ’’یونان میں غیر ملکیوں سے بیزاری اور تعصب میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایک سیاسی پارٹی کے متعصب کارکن تو جہاں بھی کسی تارک وطن کو دیکھتے ہیں، اس پر تشدد شروع کر دیتے۔‘‘
ان حالات میں عبدالحلیم کے لیے یونان میں مزید قیام کرنا بھی دشوار ہو گیا۔ اس نے بھی شام اور دیگر ملکوں سے آنے والے مہاجرین کی طرح مغربی یورپ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ اس سال 20 اگست کے روز اس نے بس کا ٹکٹ خریدا اور یونان سے مقدونیہ روانہ ہو گیا۔ پھر وہ سربیا اور ہنگری سے ہوتا ہوا بالآخر جرمنی پہنچ گیا۔ جرمنی میں داخلے کے بعد اس نے سیاسی پناہ کی باقاعدہ درخواست دی اور اسے بون شہر میں موجود مہاجرین اور پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔
اب جب کہ عبدالحلیم جرمنی پہنچ چکا ہے، ڈی ڈبلیو نے اس کے ساتھ گفتگو میں پوچھا کہ آیا اس کا قریب ربع صدی پر محیط مسلسل مہاجرت کا سفر ختم ہو گیا ہے؟ جواب یہ نکلا کہ یہ بات خود عبدالحلیم بھی نہیں جانتا۔
لیکن عبدالحلیم اس بات سے آگاہ ضرور ہے کہ یورپ میں مہاجرین اور تارکین وطن کو ان دنوں کس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے، ’’جرمنی میں مجھے انسانیت پسندی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہاں بھی صرف شامی مہاجرین کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی شہریوں کو سیاسی پناہ ملنے کے امکانات ویسے ہی انتہائی کم ہیں۔ اور اب فرانس میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد اور بھی سختی کی جائے گی۔ چند افراد کے جنون کی سزا ہم سب کو بھگتنا پڑ ے گی۔‘‘