عبدالسلام گرفتار ’لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی‘
19 مارچ 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بیلجیم کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپ کا انتہائی مطلوب ترین حملہ آور صالح عبدالسلام کو جمعے کے روز برسلز میں ایک چھاپے کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق سکیورٹی فورسز نے برسلز کے علاقے مولن بیک میں عبدالسلام کو اس کے چار ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کیا۔
چھبیس سالہ عبدالسلام پر الزام ہے کہ وہ تیرہ نومبر کو پیرس میں ہوئے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ ان حملوں میں 130 افراد ہلاک جبکہ ساڑھے تین سو زخمی ہو گئے تھے۔ پیرس میں اس ہولناک دہشت گردی کے بعد تمام یورپ میں خوف وہراس پھیل گیا تھا۔
بیلجیم کے استغاثہ نے بتایا ہے کہ چھاپے کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں عبدالسلام معمولی زخمی ہوا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس اہم ملزم کی تلاش میں نہ صرف فرانس بلکہ بیلجیم اور دیگر یورپی ممالک کے خفیہ ادارے بھی فعال تھے۔
عبدالسلام کی گرفتاری کے بعد جمعے کی شب فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے برسلز کا دورہ کیا اور بیلجیم کے وزیر اعظم چارلس میشل سے ملاقات بھی کی۔ بعد ازاں اولانڈ نے میشل کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’اگرچہ یہ ایک فتح ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی آج رات ختم نہیں ہو پائے گی۔‘‘
توقع کی جا رہی ہے کہ پیرس حکومت بیلجیم سے مطالبہ کرے گی کہ عبدالسلام کو فرانس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ اس کا مقدمہ اسی ملک میں چلایا جائے، جہاں وہ حملوں میں ملوث تھا۔ اولانڈ نے کہا کہ عبدالسلام پیرس حملوں میں براہ راست ملوث تھا۔
فرانسیسی صدر کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ جو معلومات ہمیں موصول ہوئی ہیں، اس کی روشنی میں کل صبح میں ڈیفنس کونسل کی ایک میٹنگ کی سرپرستی کروں گا۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اس میٹنگ میں فرانس کے اعلیٰ دفاعی اور سکیورٹی اہلکار مستقبل کی حکمت عملی پر غور کریں گے۔
بیلجیم کے وزیر اعظم میشل نے اس پریس کانفرنس میں عبدالسلام کی گرفتاری کو اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہا پسندی کے مقابلے میں جمہوریت کی فتح ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پیرس حملوں کے حوالے سے جاری تحقیقات میں مزید مدد مل سکے گی۔
حالیہ دنوں کے دوران بیلجیم میں ہونے والی متعدد گرفتاریوں کے تناظر میں صدر اولانڈ نے کہا ہے کہ پیرس حملوں میں ملوث افراد کی تعداد ان کی سوچ سے کہیں زیادہ تھی۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں میں براہ راست ملوث دس حملہ آوروں میں سے صرف عبدالسلام ہی زندہ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس گرفتاری کی وجہ سے اس گروہ کے دیگر ممبران کو گرفتار کرنے کا عمل آسان ہو جائے گی۔