پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ کے خلاف سیاسی بغاوت میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سابق اسپیکر عبدالقدوس بزنجو ایک بار پھر اس صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب کر لیے گئے ہیں۔
اشتہار
آج جمعہ انتیس اکتوبر کے روز کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی رائے دہی میں 39 ارکان نے اپنے ووٹ قدوس بزنجو کے حق میں دیے۔ ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے اس اجلاس میں بتایا کہ قائد ایوان کے طور پر انتخاب کے لیے قدوس بزنجو کے مقابلے میں کس دوسرے رکن اسمبلی نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ ایوان میں پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔
اپنے انتخاب کے بعد نئے وزیر اعلیٰ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقد ہوئی، جہاں صوبائی گورنر سید ظہور آغا نے قدوس بزنجو سے حلف لیا۔ سن 2002 سے سیاست میں سرگرم عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان میں حکومت مخالف مسلح گروپوں کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع آواران کی تحصیل جاؤ شندی سے ہے۔
قدوس بزنجو نے 2013 کے عام انتخابات میں اپنے حلقے سے صرف 544 ووٹ حاصل کر کے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ نو منتخب وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو بھی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کےعہدوں پر فائر رہے تھے۔ نئے وزیر اعلیٰ کو غیر متوقع طور پرحکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ صوبے میں متحدہ اپوزیشن کی بھی بھرپورحمایت حاصل ہے۔
قدوس بزنجو کا اسمبلی میں بیان
بلوچستان اسمبلی کے آج کے اجلاس میں اپنا ایک پالیسی بیان دیتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ انہیں سب نے مل کر وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے اور وہ خود سے کی جانے والی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''تمام اہم معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان کے مستقبل کے فیصلے یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کیے جائیں۔ ہمیں جو مینڈیٹ دیا گیا ہے، یہ اس کا تقاضا ہے کہ صوبے میں بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ماضی میں عوام سے صرف وعدے کیے گئے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ پہلے کام کریں اور پھر اس کے ہو جانے کا اعلان کریں۔‘‘
نو منتخب وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سیاست میں اختلاف رائے مثبت رجحانات کو فروغ دیتا ہے ۔ ان کے بقول، ''جام کمال نے مشکل وقت میں یہاں کام کیا ۔ ان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں۔ ان کے تجربے سے استفادے کی کوشش کروں گا۔ کوشش ہے کہ سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھوں تاکہ صوبے میں تمام اہم معاملات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکوں۔‘‘
جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد
قدس بزنجو کے پیش رو وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف 34 اراکین اسمبلی نے 20 اکتوبر کو ایک تحریک عدم اعتماد پیش کر دی تھی۔ اس کے بعد جام کمال 24 اکتوبر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
دسمبر2017 میں مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خاتمے میں بھی عبدالقدوس بزنجو نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک کی کامیابی کےبعد جنوری 2018 سے سات جون 2018 تک وہ پہلے بھی ایک مرتبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری بھی قدوس بزنجو کے حامی اراکین اسمبلی میں شامل تھے۔
نواب ثناء اللہ زہری نے دو روز پہلے کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کا فیصلہ انہوں نے اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر کیا ہے۔ ثناءاللہ زہری نے کچھ عرصہ قبل پاکستان مسلم لیگ ن سے مستعفی ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔
اشتہار
جام کمال کی درخواست
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے معاملات میں بہتری کے لیے مداخلت کی درخواست بھی کی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں مرکزی حکومت کے بعض عہدیداروں پر بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی لگایا تھا۔
جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر پرویز خٹک اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نےکوئٹہ میں کئی روز تک قیام کیا تھا۔ ان رہنماؤں کے دورہ کوئٹہ کے دوران قدوس بزنجو کے حق میں کئی ناراض اراکین سے مذاکرات بھی کیے گئے تھے۔ جام کمال کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ایک منظم سازش کے تحت ختم کی گئی۔
ہزارہ برادری: خوف، حوصلہ اور خود اعتمادی
ہزارہ برادری بلوچستان میں آباد ایک نسلی گروہ ہے۔ انتہا پسندوں کے حملوں کہ وجہ سے اس کمیونٹی کے لوگ اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ثقافت انتہائی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
خریداری بھی پہرے میں
ہزارہ برادری کے تاجر کوئٹہ کی مرکزی مارکیٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ انہیں اس مقصد کے لیے ایک چیک پوائنٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے رہائشی علاقے کے گرد ایک بڑی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ مارکیٹ آتے جاتے وقت فوجی ان کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستان سے محبت
ہزارہ برادری افغانستان کا ایک نسلی گروہ ہے لیکن ایک ملین کے قریب ہزارہ افراد پاکستان میں آباد ہیں اور اسی ملک کو وہ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ سینکڑوں ہزارہ افراد فوج میں ملازمت کرتے ہیں جب کہ ان کے علاقے میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت کوئٹہ کے ہزارہ اور ماری آباد ٹاؤن میں رہائش پذیر ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
الفاظ کی طاقت
نوید علی کے سینے پر ’اپنی طاقت پر اعتماد کرو‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کا ایک مطلب بیرونی حملوں کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔ تئیس سالہ نوید ہزارہ ٹاؤن میں باڈی بلڈنگ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ورزش نہ صرف صحت کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ انہیں منشیات سے دور رہنے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دفاع لیکن پرامن
ہزارہ جب بھی اپنے مطالبات اور حفاظت کے لیے احتجاج کرتے ہیں، پرامن طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پرامن دھرنے اور احتجاج کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ صوبائی پارلیمان میں ان کی دو سیٹیں ہیں۔ اس کُنگفو ماسٹر مبارک علی کے مطابق ہزارہ برادری کی ’امن سے محبت کم نہیں‘ ہو گی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
محاصرے میں ناشتہ
تیس سالہ وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن سردار سہیل کا اپنی والدہ کے ہمراہ ناشتہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم کئی برسوں سے محاصرے والی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری حفاظت کے لیے اردگرد چیک پوائنٹس بنائی گئی ہیں لیکن اس کی وجہ سے آپ دیگر علاقوں سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Soomro
پستول اور خدا پر بھروسہ
ہزارہ نسل کا تعلق منگولیا کے خطے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نین نقش اور چہروں کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ عسکریت پسند اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سردار سہیل گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ پستول اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ سردار سہیل کے مطابق ان کا ایمان بھی انہیں تقویت دیتا ہے اور وہ گھر سے رخصتی کے وقت ہمیشہ اپنی والدہ کے ہاتھ چومتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
ثقافتی سرگرمیاں
کوئٹہ میں ہزارہ برادری اپنی تاریخ، موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جون کے اختتام پر ایسے ہی ایک ثقافتی میلے کا آغاز بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کیا۔ وہ اور دیگر شرکا ہزارہ افراد کی روایتی ثقافتی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
روایات نئی نسل کے حوالے
اسی روایتی میلے میں ایک چھوٹی سی لڑکی کڑھائی کا کام کر رہی ہے۔ لیکن روایتی لباس کے ساتھ وہ خود بھی ایک آرٹ کا نمونہ لگ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
تعلیم میں سرمایہ کاری
محمد آصف کی نظر میں تعلیم سب سے اہم ہے۔ وہ ماری آباد میں ایک سکول چلاتے ہیں۔ بچے صبح کی دعا کے لیے جمع ہیں۔ محمد آصف کے مطابق وہ نوجوانوں کے لیے معاشرے میں بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
ایک نظر مستقبل پر
ماری آباد کے اسکول کی اس بچی کے مستقبل کا انحصار صرف اور صرف ان پر ہونے والے حملوں کی بندش پر ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی حفاظت اور آزادی ہی ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
10 تصاویر1 | 10
منتخب حکومتوں کے خلاف 'منظم سازشوں کی روایت‘
بلوچستان میں سیاسی امور کے تجزیہ کار فرمان رحمان کہتے ہیں کہ صوبے میں منتخب حکومتوں کے خلاف ہمیشہ منظم سازشیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ماضی کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں بنانے اور ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ بلوچستان میں کسی خود مختار حکومت کی تشکیل کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہاں مخلوط حکومتیں اس لیے بنتی ہیں کہ کوئی ایک جماعت اتنی خود مختار نہ ہوکہ آزادانہ طور پر کوئی فیصلے کر سکے۔ مخلوط حکومتوں پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکا کر انہیں مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
فرمان رحمان کا مزید کہنا تھا کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ملک میں کوئی سیاسی بحران جنم لیتا ہے، تو آغاز بلوچستان سے ہی کیا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پچھلے دور حکومت میں جب یہاں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت ختم ہوئی، تو مرکز میں نواز شریف کو مختلف الزامات کے تحت ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس سے قبل بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی نمائندہ حکومت بھی گورنر راج نافذ کر کے ختم کی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا بیان ریکارڈ پر ہے، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کی ان کی حکومت اس لیے ختم کی گئی تھی کیونکہ انہوں نے سونے کے وسیع ذخائر کے حامل منصوبے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔‘‘
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
اپوزیشن رہنما کا موقف
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ملک سکندر کے بقول صوبے کی نئی مخلوط حکومت کی پالیسیوں میں اولین ترجیح مرکز نہیں بلکہ صوبہ ہی ہونا چاہیے۔ کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ''بلوچستان آج جس موڑ پر کھڑا ہے، اس کے ذمہ دار ماضی کے وہ حکمران ہیں، جنہوں نے یہاں زمینی حقائق کے برعکس اقدامات کیے۔ نئی حکومت سے عوام کو بہت توقعات ہیں۔ نئے وزیر اعلیٰ کو عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔‘‘
ملک سکندر کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان کے سیاسی معاملات پر اگر سنجیدگی سے توجہ دی جاتی، تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ ان کے مطابق، ''بلوچستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے۔ نئی مخلوط حکومت صوبے میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ مالی بے ضابطگیوں کے خلاف اور دیگر اہم معاملات میں بھی بہتری کی لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دے۔ قومی منصوبوں میں بلوچستان کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کی جانا چاہیے۔‘‘
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔