عبوری حکومت کے سربراہ اسد ہی ہوں گے، شامی وزیر
4 دسمبر 2013شامی وزیر اطلاعات عمران الزعبی نے کہا ہے کہ بشار الاسد شام کے صدر ہیں اور آئندہ بھی صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگلے مہینے جنیوا میں جن امن مذاکرات کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی کسی بھی عبوری حکومت کی سربراہی بھی بشار الاسد ہی کریں گے۔
شام کی سرکاری خبر ایجنسی کے مطابق وزیر اطلاعات الزعبی نے آج بدھ کے روز کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دمشق حکومت اس لیے جنیوا کانفرنس میں حصہ لے گی کہ دمشق کی چابیاں اپوزیشن کے حوالے کی جا سکیں، تو ایسے عناصر کو جنیوا کانفرنس میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اطلاعات کے مطابق اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف صدر بشار الاسد کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر کوئی عبوری انتظامیہ اقتدار میں آئی بھی، تو اس کی قیادت بھی وہی کریں گے۔ وہ شام کے لیڈر ہیں اور شام کے صدر رہیں گے۔‘‘
عمران الزعبی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شام کے بارے میں ’جنیوا ٹو‘ کے نام سے جنوری میں ہونے والی آئندہ امن کانفرنس میں سعودی عرب کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔
سعودی عرب شامی باغیوں کے سب سے بڑے حامی ملکوں میں شامل ہے اور اس پر دمشق حکومت کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ ’دہشت گردوں‘ کو ہتھیار اور عسکری تربیت فراہم کر رہا ہے۔ دمشق حکومت شام میں حکومت مخالف باغیوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔
شامی باغیوں کا مطالبہ ہے کہ صدر اسد کو فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور وہ جنیوا امن کانفرنس کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی کسی عبوری حکومت کا حصہ بھی نہ ہوں۔ شام کا خونریز تنازعہ مارچ 2011ء میں شروع ہوا تھا، جو اب تک تباہ کن خانہ جنگی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
گزشتہ تینتیس مہینوں کے دوران شام میں ایک لاکھ 26 ہزار انسان مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں پناہ گزینوں کے طور پر اندرون ملک اور بیرون ملک مہاجرت کر چکے ہیں۔
شام کے بارے میں جنیوا ہی میں پہلی کانفرنس جون 2012ء میں ہوئی تھی لیکن اس کانفرنس کے نتائج پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ اب اسی تنازعے کے بارے میں ’جنیوا ٹو‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بائیس جنوری کو ہو گی۔
اس کانفرنس کی تاریخ شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی مندوب لخضر براہیمی کی کئی مہینوں کی کوششوں کے بعد طے پائی تھی۔ براہیمی نے ہی دمشق حکومت اور شامی باغیوں کے نمائندہ اتحاد سیریئن نیشنل کولیشن کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ انہیں جنیوا مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے۔