عثمان بزدار نے جس سبک رفتاری سے سیاست اور پی ٹی آئی کو چھوڑ کر فوج کی حمایت میں بیان جاری کر دیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سابق کپتان عمران خان کے خلاف ہی وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔
اشتہار
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سابق وزیر اعلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے قابل اعتبار ساتھی سردارعثمان بزدارکی طرف سے سیاست سے دستبرداری کے اعلان نے پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے۔
جنوبی پنجاب کے علاقے تونسہ سے تعلق رکھنے والے چون سالہ عثمان بزدار کو پچھلے چودہ مہینوں سے کرپشن کے متعدد مقدمات کا سامنا تھا۔ جمعہ کے روز ایک مختصر پریس کانفرنس میں انہوں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔
واضح رہے کہ عثمان بزدار پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تین سال سے زائد عرصے تک پنجاب صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ انہیں پی ٹی آئی کے متعدد اہم اور سینئر لیڈروں کو نظر انداز کرکے عمران خان نے وزیر اعلی بنایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پچھلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بار بار کے مشوروں کے باوجود عمران خان نے انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔
عثمان بزدار کی بطور وزر اعلی کارکردگی سے متعلق پی ٹی آئی میں ان کے خلاف خبریں گردش کرتی رہتی تھیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمراان خان نے ہمیشہ ان کی کارکردگی کو سراہا اور وہ انہیں ''وسیم اکرم پلس‘‘ قرار دیتے تھے۔
بعد ازاں سیاسی حالات بدل جانے کے بعد عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے عثمان بزدار کے سیاست چھوڑنے کا اعلان اس لیے حیران کن نہیں ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عثمان بزدار بہت کمزور آدمی ہیں اور ان میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ کسی دباؤ کا زیادہ دیر مقابلہ کر سکیں۔
نیازی کے بقول، ''عمران خان نے اس شخص کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا لیکن یہ عمران خان کو جتنی جلدی چھوڑ گیا ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سردار عثمان بزدار عمران کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کے اس پریس کانفرنس کے بعد عثمان بزدار کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات کا کیا بنے گا حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ وہی بنے گا جو اس ملک میں ہمیشہ سے بنتا آیا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
سینئر تجزیہ کار اور ٹی وی اینکر سجاد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سردار عثمان کی سیاست سے دستبرداری طاقتور حلقوں اور عوام کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ان کے خیال میں نو مئی کے واقعات کے بعد جو حالات سامنے آئے ہیں عثمان بزدار کو اس سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔
سجاد میر نے کہا، ''اس وقت تک پاکستان تحریک انصاف کے سو سے زائد افراد پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی پریس کانفرنس نو مئی کے واقعات کی مذمت، پاک فوج کی حمایت اور سیاست، پی ٹی آئی یا اس کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان لیے ہوئے ہوتی ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ سجاد میر کہتے ہیں کہ نو مئی جیسے افسوس ناک واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن پھر اگر انسانی حقوق کی پاسداری کو دھیان میں نہ رکھا گیا تو اس عمل کے خلاف آوازیں بھی اٹھ سکتی ہیں۔
ممتاز تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی ملکی تاریخ میں لوگ سیاسی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں یہ پہلی دفعہ دیکھا جا رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوتے جا رہے ہیں۔
اشتہار
انسانی حقوق کی پامالی مسائل پیدا کرے گی
غنی کا کہنا ہے، '' اسی طرح ماضی میں اداروں کی مخصوص پالیسیوں یا ان کے کچھ مخصوص طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن جس طرح ماضی قریب میں اداروں کو براہ راست ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ ایک نیا رجحان ہے اور اسی وجہ سے نوبت موجودہ حالات تک پہنچی ہے۔ ‘‘
سلمان غنی کے مطابق عثمان بزدار پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے تھے اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے ذرا پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے آخری آدمی تھے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان نے انہیں وزیر اعلیٰ بنا کر بہت سوں کی مخالفت مول لی تھی۔ لیکن وہ بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے۔
اس سوال کے جواب میں کہ وفاداریاں بدلوانے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ سلمان غنی نے بتایا کہ جب تک سیاست دان اپنے مخالفین کی تذلیل کے لیے اپنا کندھا فراہم کرتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
غنی کا مزید کہنا تھا، ''جب نواز شریف پر سختی آئی ہوئی تھی تو عمران خان بالا دست قوتوں کے ساتھ کھڑے ان کے معاون بنے ہوئے تھے۔ آج عمران خان پر سختیوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور ان کے مخالف سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو مضبوط اور میچور ہونا ہو گا۔ ‘‘