1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عدالتوں میں عمران خان کے مقدمات مرکز نگاہ

عبدالستار، اسلام آباد
24 اگست 2023

اسلام آباد ہائی کورٹ اور پاکستانی سپریم کورٹ آج جمعرات کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے۔ جو آج پاکستان میں تمام لوگوں کے لیے مرکز نگاہ بنے رہیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ اور پاکستانی سپریم کورٹ عمران خان کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے
اسلام آباد ہائی کورٹ اور پاکستانی سپریم کورٹ عمران خان کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کریں گےتصویر: Mohsin Raza/REUTERS

 عمران خان کی وکلا ٹیم آج دونوں عدالتوں میں مصروف رہے گی اور عمران خان سے متعلق تین مقدمات میں اپنے دلائل دے گی۔ ان مقدمات میں توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا کی معطلی کی درخواست ہے، جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنی جائے گی۔

 عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ نے ڈی ڈبلیو کو ان مقدمات کے حوالے سے بتایا، ”ایک اور مقدمہ ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ اسلام آباد کے دائرہ کار کے تعین کے حوالے سے ہے جب کہ تیسرا مقدمہ کوئٹہ میں ایک وکیل کے قتل کے حوالے سے ہے۔"

اس قتل کا کیس عمران خان کے خلاف درج ہوا تھا اور پی ٹی آئی اس مقدمے کو ختم کرنے کی اپیل کر رہی ہے۔

پاکستان: سیاسی جماعتیں کمزور اور اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور

عمران خان کی قانونی ٹیم کے ایک اور رکن محمد اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوئٹہ قتل مقدمے میں بلوچستان ہائی کورٹ پہلے ہی مقدمے کو ختم کرنے کی اپیل کو مسترد کر چکی ہے۔ ”اسی لیے سپریم کورٹ میں اب اپیل کی جا رہی ہے۔"

عمران خان کو ممکنہ طور پر دوسرے مقدمات میں گرفتار کیا جا سکتا ہےتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

رہائی کی امیدیں اور گرفتاری کے خدشات

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان کو سزا انتہائی کمزور بنیادوں پر دی گئی ہے اور یہ کہ متعلقہ عدالت کو عمران خان کو رہا ہی کرنا پڑے گا۔ تاہم پاکستان میں عدالتی کارروائیوں پہ گہری نظر رکھنے والے کورٹ رپورٹر حسنات ملک کا خیال ہے کہ عمران خان کو ممکنہ طور پر کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جائے گا۔

حسنات ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کی سزا کو معطل کر دیا جائے۔ تاہم سزا کے خلاف ان کی اپیل التوا میں پڑی رہے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سزا کو معطل کر سکتا ہے لیکن اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا نہیں کیا، تو سپریم کورٹ یقینا ایسا کر دے گی۔"

عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی

وکیل محمد اظہرصدیق ایڈوکیٹ اور محمد حسنات کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عمران خان کو ممکنہ طور پر دوسرے مقدمات میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہماری اطلاعات ہیں کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نو مئی کے مقدمات کے حوالے سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں جبکہ سائفر کیس میں بھی ممکنہ طور پہ عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے اور نیب بھی گرفتاری کے لیے پہنچ سکتی ہے۔"

اس حوالے سے عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف انہوں نے سزا کی معطلی کے لیے اپیل کی ہے بلکہ سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ وہ تمام مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری کو روکے۔

سزا کی کمزور قانونی بنیادیں

جب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر اب تک اس سزا پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔

عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں جن قانونی نکات پر سزا دی گئی ہے، وہ انتہائی کمزور ہے۔ اس حوالے سے محمد اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پہلا نقطہ تو عدالت کے دائرہ کار سے ہے۔ عمران خان نے کاغذات نامزدگی اور اثاثہ جات جمع کراتے وقت میانوالی کا پتہ دیا تھا، تو توشہ خانہ کیس پنجاب کی کسی سیشن کورٹ میں جانا چاہیے تھا لیکن اسلام آباد کے سیشن کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ جب ہم نے دائرہ کار کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، تو لاہور ہائی کورٹ نے ہمیں کہا کہ چونکہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے، تو وہاں سے فیصلہ لے لیں۔"

عمران خان کو جیل میں اے کلاس مہیا کی جائے، وکلا ء کی استدعا

محمد اظہر صدیق نے اعتراف کیا کہ یہ عمران خان کی قانونی ٹیم سے غلطی ہوئی ہے۔ ”ان کا خیال تھا کہ کیونکہ الیکشن کمیشن کا دفتر اسلام آباد میں واقع ہے اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ کار کے سوال کا مسئلہ حل نہیں کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دائرہ کار کے فیصلے کے بغیر ہی سیشن کورٹ نے عمران خان کے خلاف سزا کا فیصلہ بھی دے دیا۔"

اگر عمران خان کو رہائی مل جاتی ہے، تو یہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑی سیاسی فتح ہو سکتی ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

الیکشن کمیشن کے خلاف قانونی نکات

 محمد اظہر صدیق کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تعریف یہ ہے کہ اس میں چاروں صوبوں سے چاروں ارکان اور چیف الیکشن کمشنر ہوتے ہیں اور ان ہی میں سے کوئی عمران خان کے خلاف شکایت بھیج سکتا تھا لیکن یہ شکایت سیکرٹیری الیکشن کمیشن کی طرف سے گئی، جو الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے۔

اظہر صدیق کے مطابق اس میں ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی 31 دسمبر تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں، اگر کوئی جرم ہوا بھی تھا تو 120 دن میں یہ شکایت بھیجی جانی چاہیے تھی۔ ”لیکن یہاں اس کے لیے دو تین سال کا انتظار کیا گیا۔"

تاہم سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بدھ کو سماعت کے دوران کہا تھا کہ قانون میں لکھا ہے جب ڈکلیئریشن جھوٹا ہونے کا پتہ چلے گا، اس کے ایک سو بیس دن تک شکایت درج ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس پر کہا تھا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو سے زیادہ ارکان ہیں۔ ”الیکشن کمیشن سینکڑوں ارکان اسمبلی کے اثاثوں کا جائزہ ایک سو بیس دن میں تو نہیں لے سکتا۔ ایک سو بیس دن کب شروع ہوں گے، اس کے لئے مائنڈ اپلائی کرنا پڑتا ہے۔"

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

11:30

This browser does not support the video element.

عمران خان کا حق دفاع

پی ٹی آئی کے وکلا کا دعوی ہے کہ عمران خان کو حق دفاع نہیں دیا گیا۔ اس نقطہ کو سپریم کورٹ میں دوران سماعت جج مظاہر نقوی کی طرف سے بدھ کو اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا، ”ملک کی کسی بھی عدالت میں کریمنل کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا کیسے فیصلہ کردیا گیا۔" تاہم سرکاری وکیل امجد پرویز کا دعوی تھا کہ ملزم کو تین مرتبہ حق دفاع کا موقع دیا گیا۔ 

عمران خان کی گرفتاری، کیا مؤثر احتجاجی مہم چلے گی؟

ان نکات سے قطع نظر آج پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کی پوری توجہ عمران خان کے حوالے سے چلنے والے ان مقدمات پر ہوگی۔ اگر عمران خان کو رہائی مل جاتی ہے، تو یہ ایک بڑی سیاسی فتح پاکستان تحریک انصاف کے لیے ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر سزا کی معطلی کی اپیل مسترد ہوتی ہے، تو اس سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں مایوسی کی بادل چھا سکتے ہیں لیکن ایسے کسی فیصلے پر تنقید بھی خوب ہو گی کیونکہ پانچ برس یا اس سے کم سزا عموما معطل ہو جاتی ہے۔

عبدالستار

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں