لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کو نکال کر انتخاب کی گنتی دوبارہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
اشتہار
لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آج جمعرات 30 جون کو وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دائر کردہ متعدد درخواستوں کی سماعت کے بعد جو آٹھ صفحاتی تحریری فیصلہ جاری کیا اس میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی (جمعے کے روز) پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور منحرف اراکین اسمبلی کو نکال کر وزارت اعلیٰ کے لیے دوبارہ گنتی کی جائے۔ فیصلے کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ انتخاب کروا کر اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک وزیراعلیٰ کے انتخاب کے نتائج جاری نہیں کیے جاتے، جبکہ نتائج آنے کے بعد گورنر اگلے دن 11 بجے نو منتخب وزیراعلیٰ کا حلف لیں گے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں خبردار کیا کہ اگر کسی بھی فریق کی طرف سے اسمبلی سیشن کے دوران بدنظمی کی گئی تو اسے توہین عدالت تصور کیا جائے گا۔
اس کیس کے حوالے سے سنائے جانے والے مختصر فیصلے کے ساتھ جسٹس ساجد سیٹھی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ کرانا چاہیے۔
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے لیے درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پنجاب میں ایک دفعہ پھر بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما متضاد بیانات دے رہے ہیں لیکن غیر جانبدار مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ نون کے سربراہی میں حکومتی اتحاد کو نمبر گیم میں پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے بقول تیزی سے بدلتی ہوئی صوبے کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رہے جمعے کے روز ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اس اجلاس میں حمزہ شہباز شریف یا چوہدری پرویز الہی میں سے کسی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے حوالے سے فیصلہ سامنے آئے گا۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
بین الاقوامی انگریزی اخبار سے وابستہ پاکستان کی ایک سینئر تجزیہ کار دردانہ نجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آیا ہے اور صورتحال میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوگی: ''حمزہ شہباز ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ عدالت نے صرف سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کو مد نظر رکھ کر یہ فیصلہ دیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو ایسے انتخابات کی گنتی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ منحرف اراکین کو نکال کر بھی اکثریت مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کے پاس ہی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیںاس لیے لگتا ہے کہ صورتحال تبدیل نہیں ہو گیکیونکہ پاکستان کی سیاست پر اثرانداز ہونے والی قوتیں نہیں چاہتیں کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ کسی قسم کے عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔ ان کے بقول اگر اس مرحلے میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو پھر ملک میں معاشی استحکام بھی نہیں آ سکے گا اور اس کے ہم متحمل نہیں ہو سکیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں دردانہ نجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا کے مہذب ملکوں میں حکومتیں بدلتیں رہتی ہیں انتخابات بھی ہوتے ہیں لیکن ہماری طرح کی جگ ہنسائی کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتی: ''کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ میں چند ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو جان بوجھ کر ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔ انہیں شاید اس صورتحال کے نقصانات کا پوری طرح ادراک نہیں ہے۔ ‘‘
پاکستان کے ایک سینیئر صحافی فاروق عادل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی نظر میں اس فیصلے کے ذریعے مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت کو ریلیف ملا ہے اور ہلڑبازی، کشیدگی اور افراتفری کے ماحول میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے والے حمزہ شہباز کو اب آئینی طریقے سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور نیا آئینی کور ملنے سے حمزہ شہباز زیادہ شفافیت اور زیادہ اعتماد کے ساتھ ایوان میں کھڑے ہو سکیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں فاروق عادل کا کہنا تھا، ''حمزہ شہباز کے دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کی صورت میں اس تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ ہوائیں حمزہ شہباز کی موافق سمت میں چل رہی ہیں اور اس تاثر سے مسلم لیگ نون کو ان ضمنی انتخابات میں فائدہ ہو گا جن میں پہلے ہی ان کی پوزیشن بہتر دکھائی دے رہی ہے۔‘‘