عدالت نے نواز شریف کو باہر جانے کی سہولت دی: پرویز رشید
20 نومبر 2019نواز شریف جب پارک لین میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود کارکنوں نے ان کے حق میں نعرے لگائے۔ ابھی دو روز قبل ہی وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ این آر او کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور چئیرمین نیب جاوید اقبال کا بیان بھی تھا کہ نیب کی طرف سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص امریکہ یا لندن میں علاج کرا سکتا ہے ، باقی انسان نہیں؟ کیا وہ نواز شریف کی لندن روانگی کے لئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ احتساب کے اتنے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد نواز شریف کو سات ارب ڈالر وصول کئے بنا جانے کیسے دیا۔ جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن میں کرپشن کے خلاف احتساب کے نعرے پر عوام سے ووٹ لیا تھا۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ نواز شریف کا باہر جانا کسی ڈیل کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے رہنما سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کی۔ ڈیل کے ذکر پر انھوں نے کہا کہ ''اس قسم کی بہتان تراشی اب رک جانی چاہئے کیونکہ عدالت اس بنیاد پر دو وزرا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر چکی ہے، جس کے بعد ان وزرا نے عدالت سے معافی طلب کی تھی۔ یہ عدالت کا فیصلہ ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو یہ سہولت فراہم کی اور اس سے پہلے بھی عدالتیں انھیں یہ سہولتیں فراہم کرتی رہی ہیں کہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ''فواد چودھری کی باتیں بے بنیاد ہیں کہ نواز شریف واپس نہیں آئیں گے، آج نواز شریف کو لفٹر کے ذریعے جہاز میں پہنچایا گیا لیکن فواد چودھری نے تقریر کی کہ وہ دوڑ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔‘‘
سیاسی حلقے اور عوام اس بات کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا مریم نواز بھی بیرون ملک روانہ ہو جائیں گی یا وہ وہ اپنے والد کے بعد ان کی جگہ سنبھال کر عملی سیاست میں سر گرم نظر آئیں گی۔ لیکن پرویز رشید کے بیان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ مریم نواز ای سی ایل سے اپنا نام نکلنے کی منتظر ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ بھی لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔
اس بارے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ''مریم نواز کا نام ابھی ای سی ایل میں ہے اور نیب میں ان کے مقدمات کی سماعت جاری ہے، ہماری خواہش ہے کہ وہ لندن جا کر اپنے والد کی خدمت کریں۔ اس کے لئے ہم قانونی طریقہ ہی اختیار کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔‘‘
شہباز شریف اور مریم نواز کے لندن روانہ ہو جانے کے بعد مسلم لیگ ن کی سربراہی کون کرے گا اس سوال کے جواب میں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ''آج کے زمانے میں فاصلے ختم ہو چکے ہیں۔ وہ لندن میں بیٹھ کر بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ سن 1999 میں بھی قیادت کو جلا وطن کیا گیا تھا تب بھی قیادت کا فقدان نہیں ہوا، اب بھی اس قسم کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ لیکن شہباز شریف ہمارے صدر ہیں اور مریم نواز میری طرح کی کارکن ہیں۔‘‘
پرویز رشید کے اس بیان سے بظاہر یہی تاثر ملتا ہے کہ مستقبل قریب میں مریم نواز عملی سیاست میں نظر نہیں آئیں گی۔ کیونکہ مسلم لیگ ن میں یہ طے ہو چکا ہے کہ شہباز شریف پارٹی کو چلانے کے لئے مرکزی کردار ادا کریں گے۔ لیکن سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف دونوں کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد ڈیل کا تاثر مزید پختہ ہو گا۔
کیا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے نے بھی اس سلسلے میں کوئی کرادر ادا کیا ہے کیونکہ کہا گیا کہ جیسے ہی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا مولانا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس پر پرویز رشید کا موقف تھا کہ مولانا کے دھرنے کے دو بینیفشریز ہیں ایک وزیراعظم، جنہوں نے دھرنا ختم ہوا تو انھوں نے دو دن کی چھٹی کی اور دوسرے اسد عمر جن کو وزارت مل رہی ہے۔
حکومتی اتحاد بارے ان کا کہنا تھا کہ ''حکومتی اتحاد میں یکجوئی ختم ہو رہی ہے۔ حکومت کے حلیفوں نے نواز کے معاملے پر انسانی قدروں سے قریب رویہ اختیار کیا، جبکہ پی ٹی آئی ان قدروں سے دور رہی، پاکستان جس عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ عوام کے پاس جایا جائے اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے حقیقی عوام کے نمائندوں پر مشتمل حکومت بنے تا کہ سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کا سفر دوبارہ جاری ہو سکے۔