عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ روڈی جولیانی نے گزشتہ برس کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو بدلنے کی کوشش میں غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ لائسنس کی منسوخی کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ اپنے موکل کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
اشتہار
نیویارک کی ایک عدالت نے 24 جون جمعرات کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل روڈی جولیانی کا وکالت کا لائسنس یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ انہوں نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش کے دوران غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
وکلا کی ایک تادیبی کمیٹی نے عدالت سے سفارش کی تھی کہ چونکہ جولیانی نے عدالت، عوام اور قانون سازوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انتخابات دھاندلی اور فراڈ کے ذریعہ چوری کر لیے گئے اور ایسا کرنے کی کوشش میں انہوں نے جعلی اور جھوٹے بیانات پیش کیے اس لیے ان کا وکالت کا لائسنس منسوخ کر دیا جانا چاہیے۔ عدالت نے اسی سفارش پر عمل کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا۔
اشتہار
جمہوریت داؤ پر ہے
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ 2020 کے صدارتی، "انتخابات اور ہمارے موجودہ صدر، جوزف بائیڈن کے جواز پر مسلسل حملوں کی وجہ سے اس ملک کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ہماری جمہوریت کی پہچان تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے ہوتی ہے۔"
عدالت نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا، "جھوٹے بیانات سے ہمارے انتخابات پر اعتماد کے ضیاع کو مزید فروغ ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو تا ہے اور نتیجتا آزاد معاشرے میں مناسب کام کاج کو بھی کافی نقصان پہنچتا ہے۔"
عدالتی فیصلے کا اثر یہ ہوگا کہ روڈی جولیانی بطور وکیل اپنے موکل کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکیں گے اور جب تک لائسنس بحال نہیں ہو جاتا اس وقت وہ وکالت کا پیشہ نہیں اختیار کر سکتے۔
جولیانی کے اٹارنی کا کیا کہنا ہے؟
روڈی جولیانی کے وکیل بیری کمنس اور جان لیونتھیل نے عدالت کے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ ماضی میں اس طرح کے فیصلے کی کوئی مثالی نہیں ملتی کہ جو الزامات عائد کیے گئے ہوں اس پر فریق کا موقف سنے بغیر ہی فیصلہ صادر کر دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا، "ہمارا ماننا یہ ہے کہ ایک بار جب سماعت کے دوران اس کا اچھی طرح مکمل جائزہ لیا جائے گا تو مسٹر جولیانی قانونی پیشے کے قابل قدر رکن کی حیثیت سے دوبارہ بحال ہو جائیں گے کیونکہ انہوں نے اتنے برسوں سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اس شعبے میں عمدہ خدمات انجام دی ہیں۔"
نیویارک کے معروف وکیل اور شہر کے سابق میئر روڈی جولیانی اپنے خلاف عدالت کے اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کرنے کے مجاز ہیں، تاہم فیصلے میں کہا گيا ہے کہ بالآخر وہ پابندیوں سے بچ نہیں سکتے اور ان پر کچھ نہ کچھ مستقل پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
روڈی جولیانی ایک دور میں جنوبی نیویارک ڈسٹرکٹ کی عدالت میں امریکا کے اٹارنی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جو ایک بڑا عہدہ ہے اور اس فیصلے سے ان کی ساکھ کو کافی دھچکا لگا ہے۔
سن 2001 میں جب نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو اس وقت جولیانی ہی نیویارک شہر کے میئر تھے اور اس دوران وہ کافی فعال طور سرگرم رہے تھے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر انہیں پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
ص ز/ ج ا ( اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔