یمن کے جنوبی بندرگاہی شہر عدن میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے نتیجے میں کم از کم باون حکومتی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ یمنی فوج اور طبی حکام کے مطابق اِس حملے میں درجنوں دوسرے فوجی زخمی بھی ہوئے۔
اشتہار
آج اتوار، اٹھارہ دسمبر کی صبح ہونے والے اس حملے میں ایک خودکش بمبار نے فوجیوں کو اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ عدن شہر کے شمال مشرقی علاقے العریش میں واقع السوالبا Al-Sawlaba آرمی بیس پر اپنی تنخواہوں کی وصولی کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
ایک ہفتہ قبل عدن میں ہونے والی اسی نوعیت کے خودکش حملے میں باون یمنی فوجی ہلاک جبکہ 29 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دہشت پسند گروپ داعش نے قبول کی تھی۔
عدن، اِس وقت منصور ہادی حکومت کا مرکز ہے کیونکہ دارالحکومت صنعاء پر حوثی ملیشیا کنٹرول رکھتے ہیں۔ یمنی حکام کی طرف سے ملک کے شمالی حصے میں داعش کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے کارروائیاں جاری ہیں۔ جنگ سے متاثرہ یمن میں داعش ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق داعش اور اس کے حریف گروپ القاعدہ نے یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری خانہ جنگی کا فائدہ اٹھایا ہے اور دونوں گروپوں کی طرف سے عدن میں متعدد حملے کیے جا چکے ہیں۔ تاہم القاعدہ کی طرف سے 10 دسمبر کے حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا تھا۔ القاعدہ کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کا خون بہانے سے احتراز کرتی ہے جبکہ اس کا نشانہ امریکی اور اس کے اتحادی ہیں۔
رواں برس اگست میں داعش کے ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری اپنی کار عدن کے ایک فوجی بھرتی کے دفتر کے باہر دھماکے سے اڑا دی تھی جس کے نتیجے میں 71 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایک برس سے زائد عرصے کے دوران عدن میں یہ خونریز ترین دہشت گردانہ حملہ تھا۔
یمنی حکومت کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے والے حوثی باغیوں کے خلاف سعودی سربراہی میں اتحادی ممالک مارچ 2015ء سے فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمنی جنگ کے باعث اب تک سات ہزار سے زائد افرا دہلاک ہو چکے ہیں۔
یمنی خانہ جنگی سے متاثرہ بچوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔