عراقی انتخابات میں علاوی کی مالکی پر سبقت
21 مارچ 2010عراقی پارلیمانی انتخابات کے لئےسات مارچ کو ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی تاحال مکمل نہیں ہوئی جبکہ فریقین کے مابین الزام تراشیوں کا سلسلہ تیز تر ہوگیا ہے۔
اب تک کے عبوری سرکاری نتائج کے مطابق سیکیولر نظریات کے حامل ایاد علاوی کے حامی اتحاد ’العراقیہ‘ کو شیعہ عقیدے کے پیروکار نوری المالکی کے حامی اتحاد ’دولة القانون‘ پر معمولی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ صوبائی سطح پر البتہ مالکی کی برتری برقرار ہے۔ مالکی کو عراق کے 18 میں سے سات صوبوں میں برتری حاصل ہے۔ عراقی پارلیمان میں نشستیں انتخابات کے صوبائی سطح پر نتائج کے مطابق مختص کی جاتی ہیں۔
علاوی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں اضافے کے باعث مالکی کے حامیوں کی جانب سے دوبارہ گنتی کے مطالبے کئے جانے لگے، جسے وزیر اعظم نے ایک باضابطہ لیکن زبانی درخواست کی شکل بھی دے دی۔ مالکی نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کو ملکی سلامتی اور سیاسی استحکام کے لئے ضروری قرار دیا۔ پھر صدر جلال طالبانی بھی نوری المالکی کے ہم نوا ہو گئے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے سربراہ فراج الحیدری نے یہ مطالبات رد کر دئے ہیں۔
علاوی کے ’العراقیہ‘ اتحاد نے وزیر اعظم کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کو بدنیتی پر مبنی اور الیکشن کمیشن کے لئے ’واضح خطرہ‘ قرار دیا ہے۔ علاوی کے حامیوں کو یقین ہے کہ وزیراعظم ووٹوں کی دوبارہ دستی گنتی کے لئے دباؤ اس لئے ڈال رہے ہیں کہ نتائج مؤخر کئے جا سکیں۔ ’العراقیہ‘ اتحاد یہ سوال بھی اٹھا رہا ہے کہ جب مالکی کے ’دولة القانون‘ نامی اتحاد کو برتری حاصل تھی تو وزیراعظم نے انتخابات کو شفاف کیوں کہا اور دوبارہ گنتی کی بات کیوں نہ کی۔ انتخابات کے اب تک موصولہ 92 فیصد نتائج کے مطابق علاوی کو اس وقت اپنے حریف مالکی پر آٹھ ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
یہ انتخابات 2003ء میں عراق پر امریکی حملے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک کے دوسرے پارلیمانی انتخابات تھے، جو ملک کے سیاسی مستقل کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کئے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت پر جب امریکی افواج چھ ماہ کے اندر عراق سے مکمل انخلاء کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اندرونی سیاسی کشمکش اور بے یقینی کی وجہ سے اس ملک میں سلامتی کی صورتحال بے قابو ہو جانے کا بھی خطرہ ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : مقبول ملک