عراقی جنگ کے پانچ سال : چار ہزار امریکی فوجی ہلاک
24 مارچ 2008تعداد چار ہزار ہو چکی ہے اور اس تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی فوجیوں کی ان ہلاکتوں میں ستانوے فیصد بغداد پر امریکہ کے مکمل کنٹرول کے بعد پیش آئی ہیں اور ان کی زمہ داری مزاحمت کار القاعدہ عسکریت پسندوں پر عائد کی جاتی رہی ہے۔تازہ ترین ہلاکتوں میں جنوبی بغداد میں گشت پر معمور چار امریکی سپاہیوں کی ہلاکت ہے جو کہ مبینہ طور پر القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے خود کش حملے میں مارے گئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ برس امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں سے چوالیس فیصد سڑک پر رکھے بم حملوں سے ہوئی جب کے اس برس یہ تعداد پچپن فیصد ہے۔
امریکی حکّام کے مطابق گزشتہ جون سے امریکی افواج کی عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے عراق میں تشدّد کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ جہاں پُر تشدّد کاروائیوں کو روکنے کے لیے تیس ہزار اضافی امریکی فوجی عراق روانہ کیے گئے وہاں امریکی افواج کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس حوالے سے عراق میں امریکی افواج کے سربراہ ڈیوڈ پیٹری اس کا کہنا ہے کہ گو کہ مجموعی طور پر عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے، چند ہفتوں کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ اندوہ ناک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ ماضی کی طرح کامیابی کے ساتھ عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دیتی رہی ہے۔
بش انتظامیہ نے گو کہ عراقی جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک چار ہزار امریکی افواج کی ہلاکت پر رنج کا اظہار کیا ہے مگر وہ اس بات پر مصر ہے کہ ان ہلاکتوں میں زیادہ تر دوہزار چھ کے دوران ہوئی تھیں اور یہ کہ ان میں اب بے حد کمی آ چکی ہے۔ دوسری جانب امریکہ مخالف حلقے چار ہزار امریکی ہلاکتوں کو عراق میں امریکہ کی ناکام حکمتِ عملی اور امریکہ کی شکست قرار دے رہے ہیں۔اس درمیان ان چار ہزار فوجیوں کے اہلِ خانہ میں سے تمام یقیناً شدید صدمے کا شکار ہیں، ان میں سے سینکڑوں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے یہ مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ عراق سے امریکی افواج کو فوراً واپس بلا لیا جائے۔