عراقی جیلوں میں خواتین کو استحصال کا سامنا
6 فروری 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عراقی جیلوں میں قید زیادہ تر خواتین سنی فرقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد مقید خواتین کی گواہیاں، ان کے گھر والوں اور وکلاء کے بیانات اور طبی رپورٹیں ہیں۔ مزید یہ کہ اس رپورٹ کو مرتب کرتے ہوئے عدالتی دستاویزات اور حکام سے ملاقاتوں کی تفصیلات کو بھی شواہد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں خواتین کی آبروریزی کی جاتی ہے، انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور بجلی کے جھٹکے بھی دیے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کئی مرتبہ گھر والوں کے سامنے ہی مقید خواتین کو جنسی حملوں کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے نائب سربراہ جو اسٹورک نے جمعرات کے دن اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ’’عراقی سکیورٹی فورسز اور حکام سمجھتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ اس طرح کا سفاکانہ تشدد کر کے ملک کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی خواتین اور ان کے گھر والوں کا مؤقف ہے کہ جب تک سکیورٹی فورسز لوگوں کے ساتھ پرتشدد رویہ اختیار کیے رہیں گی، تب تک سلامتی کی صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ یہ مزید خراب ہو گی۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں جن 27 مقید خواتین کا انٹرویو کیا، ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اسے نو دن تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اب وہ بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر مجبور ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دوران حراست اسے مارا پیٹا گیا، برقی جھٹکے دیے گئے اور تشدد کی دیگر اقسام کا نشانہ بنایا گیا۔
اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی مرتبہ خواتین کو صرف اس لیے حراست میں لیا جاتا ہے تاکہ ان کے کنبے کے مرد حضرات کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے اور کبھی کبھار ان خواتین کے گھر والوں کو دھمکانے کے لیے۔ بتایا گیا ہے کہ قید خواتین نے بذات خود کوئی جرم نہیں کیا ہوتا۔
انسانی حقوق کے اس عالمی ادارے کے مطابق ایسی خواتین کو عدلیہ کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملتی ہے۔ جب یہ خواتین عدالت میں اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی شکایت کرتی ہیں تو کسی انکوائری کا حکم نہیں دیا جاتا ہے۔
اے ایف پی نے مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق میں جاری شورش میں زیادہ تر سنی افراد جنگجو گروہوں کی فعال طریقے سے حمایت نہیں کرتے ہیں۔ تاہم وہ شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون سے گریز ضرور کرتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق کی سنی آبادی کا کہنا ہے کہ مالکی کی شیعہ حکومت ان کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔