عراقی شہر موصل کے قریب اجتماعی قبر سے پانچ سو لاشیں برآمد
مقبول ملک
11 مارچ 2017
عراقی شیعہ ملیشیا گروپوں کے اتحاد الحشد الشعبی کے مطابق موصل کے قریب ایک اجتماعی قبر سے پانچ سو کے قریب لاشیں ملی ہیں۔ الحشد کے مطابق ان سینکڑوں افراد کو داعش نے قتل کر کے ان کی لاشیں اس اجتماعی قبر میں پھینک دی تھیں۔
اشتہار
عراقی دارالحکومت بغداد سے ہفتہ گیارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق الحشد الشعبی کے ملیشیا کارکنوں کو ان سینکڑوں انسانی لاشوں کی باقیات ایک ایسی اجتماعی قبر سے ملی ہیں، جو موصل شہر کے نواح میں بدوش کے جیل کے احاطے میں دریافت کی گئی۔
عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر لینے والی سنی عسکریت پسندوں کی جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے عراقی شہر موصل پر جون 2014ء میں کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
یہ وہی وقت تھا جب داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اس تنظیم کے کسی اجتماع میں اپنے منظر عام پر آنے کے اب تک کے واحد واقعے میں شام اور عراق میں داعش کے جہادیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ایک نام نہاد ’خلافت‘ کا قیام کا اعلان کر دیا تھا۔
اس وقت عراقی فوجی دستے امریکا کی قیادت میں سرگرم عسکری اتحاد کی مدد سے موصل شہر پر مکمل قبضے کے لیے اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موصل بغداد کے بعد عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، جس کے مشرقی حصے پر بغداد حکومت کے دستے اس سال جنوری کے مہینے کے آخر سے دوبارہ قبضہ کر چکے ہیں۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
14 تصاویر1 | 14
اس وقت عراقی فورسز اور ان کے حامی ملیشیا گروپ اس شہر کے مغربی حصے پر کو بھی واپس اپنے قبضے میں لینے کی کوششوں میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک بڑا آپریشن انیس فروری کو شروع کیا گیا تھا، جو ابھی تک جاری ہے۔ اس اجتماعی قبر کی دریافت کے بارے میں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ موصل شہر سے شمال مغرب کی طرف واقع یہ قبر بدوش نامی جس جیل کے احاطے میں دریافت کی گئی، اس پر عراقی سکیورٹی فورسز نے اسی ہفتے کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ علاقہ داعش کے جہادیوں کے کنٹرول میں تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جون 2014ء میں جب داعش کے عسکریت پسندوں نے بدوش نامی گاؤں اور وہاں قائم اس جیل پر قبضہ کیا تھا تو اس دوران وہ 10 جون کے روز مبینہ طور پر اس جیل کے قریب 600 تک قیدیوں کے قتل عام کے مرتکب ہوئے تھے۔