عراق کی ایک عدالت نے عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابومہدی المہندس کے قتل کے الزام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری کیے ہیں۔
اشتہار
مشرق وسطی میں امریکا کے اہم حلیفوں میں سے ایک عراق کی ایک عدالت کی جانب سے امریکی صدر کے خلاف جاری کیے گئے گرفتاری وارنٹ پر شاید ہی عمل ہوسکے۔ اس کی نوعیت علامتی ہے تاہم ایسے وقت میں جبکہ صدر ٹرمپ کی مدت صدارت صرف چند دن باقی رہ گئی ہے اس کی معنویت بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ برس تین جنوری کو بغداد ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھ کار میں سفر کرنے والے عراقی نیم فوجی دستے ہاشد الشابی کے نائب سربراہ کمانڈر ابو مہدی مہندس بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر کیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی ہلاکت پر کہا تھا”ایک کی قیمت پر دو (آدمیوں) کا خاتمہ ہوگیا۔ "
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس حملے کو 'یک طرفہ‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دیا تھا۔
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
9 تصاویر1 | 9
قصور وار پائے جانے پر سزائے موت
عراق کی سپریم جوڈیشیل کونسل نے جمعرات کے روز ایک بیان میں صدر ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”عراقی تعزیرات کی دفعہ 406 کے تحت ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رخصت پذیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جا رہا ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”ابتدائی تفتیش مکمل ہوچکی ہے لیکن اس جرم میں دوسرے مجرموں، خواہ وہ عراقی ہوں یا غیر ملکی، کو بے نقاب کرنے کے لیے تفتیش جاری رہے گی۔“
عراق کی سپریم جوڈیشیل کونسل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عدالت نے ابو مہدی المہندس کے اہل خانہ کی طرف سے درج کرائے گئے بیانات کی بنیاد پر وارنٹ جاری کیے ہیں۔
ٹرمپ کے خلاف اقدام قتل کے الزام کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا ہے۔ اس جرم میں قصوروار پائے جانے پر موت کی سزا کا التزام ہے۔
اشتہار
عمل درآمد ممکن نہیں
حالانکہ عراق میں اس وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کرانا ممکن نظر نہیں آتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت کے آخری دنوں میں یہ حکم علامتی حیثیت کا حامل ضرور ہے۔
یہ نئی پیش رفت عراق میں امریکی پالیسی کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی کا بھی مظہر ہے۔ اسے عراق کی شیعہ اکثریت پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سبب بھی قرار دیا جارہا ہے۔
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
ایران کی انٹرپول سے درخواست
ایران نے بھی جون میں ہی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
تہران نے انٹرپول سے ایک بار پھر درخواست کی ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر امریکی عہدیداروں کے خلاف 'ریڈ وارنٹ‘ جاری کرے۔ حالانکہ انٹرپول نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ ایران کی درخواست پر عمل کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے منگل کے روز بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی پولیس تنظیم انٹرپول سے ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی عہدیداروں کی گرفتاری کی درخواست کی ہے۔
اسماعیلی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اسلامی جمہوریہ ایران جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دینے اور اس پر عمل کرنے کے جرم کے مرتکب افراد کے خلاف اقدامات اور انہیں سزا دلانے کے تئیں انتہائی سنجیدہ ہے۔"
خیال رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور کمانڈر ابومہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد امریکا اور عراق کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ عراقی شیعہ قانون سازوں نے ایک قرارداد منظور کرکے بغداد حکومت سے کہا تھا کہ وہ غیر ملکی فوجیوں کو ملک سے باہر نکال دے۔
عراق کی قومی حکومت کو اپنے سب سے بڑے عالمی شراکت دار امریکا اور اپنے پڑوسی ایران دونوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار کھنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔
عراق کی عدالت کی جانب سے امریکی صدر کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے جانے کے باوجود جمعرات کے روز عراق میں امریکی سفیر میتھیو ٹوئیلر نے صدر برہام صالح سے بغداد میں ملاقات کی اور کشیدگی کو کم کرنے، سکیورٹی میں اضافہ کرنے اور خطے کے امن و استحکام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
ج ا / ص ز (اے پی، اے ایف پی)
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔