عراقی فوج کا موصل کو داعش سے آزاد کرانے کا عزم
16 اکتوبر 2016عراقی افواج کے مطابق اس نے ہزاروں کی تعداد میں ایسے ’لیف لیٹس‘ یا پرچیاں موصل شہر میں گرائی ہیں جن پر وہ تدابیر درج ہیں جن کے ذریعے شہری ممکنہ فوجی کارروائی کے دوران خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فوج عراق کے اس دوسرے بڑے شہر کو شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘، جسے عربی میں داعش بھی کہا جاتا ہے، کے تسلط سے نکالنا چاہتی ہے۔ اس شہر پر داعش سن 2014 سے قابض ہے، اور اسے اس تنظیم نے اپنی خود ساختہ خلافت کا حصہ قرار دیا ہوا ہے۔
حکومتی عہدے داروں کے مطابق فوج کی جانب سے شہریوں کے لیے پرچوں کے علاوہ رسائل بھی گرائے گئے ہیں، جن میں عراقی حکومت کی کامیابیوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔
مثال کے طور پر، رسائل اور پرچیوں پر یہ بھی درج ہے کہ کس طرح شہریوں کو بم باری سے بچنے کے لیے اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشوں پر ٹیپ لگانا چاہیے تاکہ وہ حملے کی صورت میں کانچ کے بکھرنے سے زخمی نہ ہوں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہریوں کو اس صورت حال میں حتی الامکان ڈرائیونگ سے گریز کرنا چاہیے۔
عراقی حکومت کی جانب سے اب تک آپریشن کے آغاز کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم امکان یہی ہے کہ اس کارروائی کا آغاز جلد ہو رہا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موصل کو داعش کو قبضے سے چھڑانے کی جنگ عراقی فوج کے لیے مشکل ترین عسکری کارروائیوں میں سے ہو گی۔
واضح رہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے سے اب تک جو بھی شہر چھڑائے گئے ہیں ان میں حکومتی فورسز کو مقامی ملیشیاؤں کی مدد لینا پڑی ہے۔ ان میں اکثر وہ عسکری گروہ بھی جو اعش کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں اور حقیقت میں متحارب نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ گروہ عراقی فوج کے شہر میں داخلے سے قبل شہر کے اندر کئی کلومیٹر تک گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق موصل میں جنگ کی صورت میں ایک انسانی بحران کا آغاز بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ داعش شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر سکتی ہے۔
موصل کو اگر داعش سے آزاد بھی کرا لیا جاتا ہے تو ماہرین کے مطابق یہ تنظیم کی مکمل شکست قرار نہیں دی جا سکے گی۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ عراق کے علاوہ شام میں بھی فعال ہے اور عراق کے بہت سے علاقوں پر اس کا یہ اس کے حمایتی گروہوں کا قبضہ ہے۔