تَل عَفر عراق اور شام کی سرحد کے درمیان اسٹریٹیجک نوعیت کا ایک اہم شہر ہے۔ موصل کے بعد عراق میں داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے قبضے میں یہ آخری شہر ہے۔
اشتہار
عراق کی فوج نے اپنی بنیادی جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی مکمل کرنے کے بعد تَل عَفر کے شہر کا قبضہ چھڑانے کی فوجی مہم شروع کر دی ہے۔ عراقی فوج کو ملکی ایئر فورس کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ تَل عَفر پر قابض جہادیوں کو پچھلے کئی ایام سے عراقی جنگی ہوائی جہاز نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عراقی فوج کے جنگی حکمت عملی میں امریکی فوجی ماہرین بھی زمینی فوج کے ہمراہ ہیں۔
عراقی فوج کی سیاہ وردی میں ملبوس وزیراعظم حیدرالعبادی نے اپنے ملک میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر کنٹرول آخری شہر تَل عَفر کا قبضہ چھڑانے کے عسکری آپریشن کے شروع کرنے کا اعلان کیا۔ فوجی آپریشن کے شروع کیے جانے پر عراقی وزیراعظم نے جہادیوں کو کہا ہے کہ اُنہیں ہتھیار ڈالنے یا موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس نئی عسکری مہم سے عراق میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا جس سے وہاں پیدا انسانی المیہ مزید گھمبیر ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے سے ہزاروں افراد کو اندرون ملک مہاجرت کا سامنا ہو گا۔ عراقی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تَل عَفر کی اکثریتی آبادی پہلے ہی داعش کے جہادیوں کے ظلم و جبر سے بچنے کے لیے راہِ مہاجرت اختیار کر چکی ہے۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
14 تصاویر1 | 14
شیعہ اکثریتی آبادی والے اس شہر پر عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے سن 2014 میں قبضہ کیا تھا۔ عراقی فوج نے رواں برس جولائی میں موصل کا مکمل قبضہ چھڑا لیا تھا۔ موصل شہر میں سے جہادیوں کو نکالنے کی مہم اکتوبر سن 2016 میں شروع کی گئی تھی۔
شام اور موصل کے درمیان قائم شاہراہ داعش کے جہادیوں کی نقل و حرکت اور اہم ترین سپلائی روٹ تصور کیا جاتا ہے۔ تَل عَفر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خود ساختہ خلافت کے مرکز ’الرقہ‘ سے موصل کی جانب سفر کرنے والے جہادیوں کاایک اہم پڑاؤ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ شہر موصل کے مغرب میں شامی سرحد سے تقریباً 150 کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے۔