عراقی کرد ترکِ اسلام کے بعد دوبارہ زرتشتی عقیدہ اپنانے لگے
25 اکتوبر 2019
عراق میں کرد نسل کے مسلمان شہریوں میں ترکِ اسلام کے بعد دوبارہ زرتشتی عقیدہ اپنانے کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا سبب عراقی کردوں میں مذہب اور قومی شناخت کا آپس میں مسلسل ایک دوسرے سے ملتا جانا ہے۔
فائزہ فواد ترک اسلام کے بعداپنا ہاتھ بلند کر کے زرتشتی عقیدے پر کاربند رہنے کا عہد کرتے ہوئےتصویر: AFP/S. Hamed
اشتہار
شمالی عراق میں دربندی خان سے جمعہ پچیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایف پی کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق فائزہ فواد بھی انہی عراقی کردوں میں سے ایک ہیں، جو اپنے مذہب کے طور پر اسلام چھوڑ کر اب زیادہ سے زیادہ تعداد میں زرتشتی (آتش پرست) یا عرف عام میں پارسی بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے عراقی کرد شہریوں کی زرتشتی عقیدے کی طرف واپسی کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے ان کے آباء کا عقیدہ بھی یہی تھا۔
اے ایف پی کے مطابق یہ تبدیلی اس وجہ سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عراق اور شام جیسے ممالک اور خاص کر کرد علاقوں میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش جیسی اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والی تنظیم کے باعث برسوں تک جو خونریزی جاری رہی، اور جو پوری طرح ابھی تک ختم نہیں ہوئی، اس نے بہت سے کردوں کو بری طرح ناامید کر دیا۔
قومی شناخت کی تلاش میں مذہب کا کردار
عراقی کردوں کو خاص کر بہت طویل عرصے تک ریاست کی طرف سے جبر کا سامنا بھی رہا ہے۔ ان حالات میں عراق کے خود مختار کرد علاقے کے یہ باشندے اب اپنی شناخت کی دوبارہ تلاش کے دوران اسی ہزاروں سال پرانے عقیدے کی طرف لوٹنے لگے ہیں، جس پر ماضی میں ان کے اجداد کی بے شمار نسلیں کاربند رہی تھیں۔
عراقی کردستان کے شہر دربندی خان میں زرتشتیوں کے ایک آتش کدے میں ایک بچہ مقدس آگ کے پاس کھڑا ہواتصویر: AFP/S. Hamed
عراقی کردستان میں زرتشتی عقیدے کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما اسراوان قادروک نے اے ایف پی کو بتایا، ''کردوں کو جتنے طویل عرصے تک اور جس شدت سے بربریت کا تجربہ داعش کی وجہ سے ہوا، اس کے بعد ان میں سے بہت سے اپنے مذہب کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘
تبدیلی مذہب کی تقریب
فائزہ فواد نامی عراقی کرد خاتون کی پارسی مذہب میں واپسی کی تقریب عراقی کردستان کے دربندی خان نامی جس علاقے میں ہوئی، وہ ایران کے ساتھ سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس تقریب کی قیادت کرنے والے ایک بڑے پارسی مذہبی رہنما اور ان کے نائبین نے وہ روایتی سفید لباس پہن رکھے تھے، جو اس عقیدے میں صفائی اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
اس عراقی کرد خاتون کی تبدیلی مذہب کے موقع پر وہاں موجود مذہبی رہنما زرتشتیوں کی مقدس کتاب 'اوستا‘ کے چند منتخب حصے بھی پڑھتے جا رہے تھے۔ پھر انہوں نے فائزہ فواد کی کمر کے ارد گرد ایک باریک سی رسی سے تین گرہیں بھی لگائیں، جو پارسیوں کے لیے انتہائی اہم تین بنیادی مذہبی اقدار کی علامت تھیں۔ یہ تین اقدار اچھے الفاظ، اچھے خیالات اور اچھے اعمال ہیں۔
زرتشتیت میں 'فرواہار‘ گلے میں پہنا جانے والا ایک ایسا نیکلس ہوتا ہے، جو اس عقیدے کی انتہائی طاقت ور روحانی علامت سمجھا جاتا ہےتصویر: AFP/S. Hamed
پھر اس نوزرتشتی خاتون نے اپنا ہاتھ بلند کر کے یہ عہد بھی کیا کہ وہ ان تینوں اقدار پر عمر بھر کاربند رہیں گی اور ساتھ ہی فطرت کے تحفظ کی کوشش کرتے ہوئے پانی، ہوا، آگ، مٹی، جانوروں اور انسانوں سب کا احترام بھی کریں گی۔ اس تقریب کی تکمیل پر وہاں موجود مذہبی رہنماؤں نے فائزہ فواد کو 'فرواہار‘ بھی پہنا دیا۔
'فرواہار‘ کیا ہے؟
زرتشتیت میں 'فرواہار‘ گلے میں پہنا جانے والا ایک ایسا نیکلس ہوتا ہے، جو اس عقیدے کی انتہائی طاقت ور روحانی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اپنی اہمیت میں یہ مسیحیوں کے گلے میں نظر آنے والے صلیب کے نشان جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہار پہننے کے بعد فائزہ فواد نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں بہت خوش ہوں اور خود کو تازہ دم محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
پارسی مذہبی عقیدے میں اپنی واپسی کے بعد فائزہ فواد نے کہا، ''میں نے بہت طویل عرصے تک زرتشتیت کا مطالعہ کیا تھا۔ اور مجھے اس مذہب کا بنیادی فلسفہ بہت اچھا لگا، اس سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ یہ عقیدہ بنیادی طور پر حکمت و دانش اور زندگی کے فلسفے کے بارے میں ہے، جو انسانیت اور فطرت کے احترام اور ان کی خدمت پر زور دیتا ہے۔‘‘
ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک زرتشتی آتش کدہ اور وہاں مقدس آگ کے پاس کھڑا ایک مذہبی رہنماتصویر: ISNA
زرتشتیت کی تاریخ
زرتشتیت یا پارسیوں کے مذہبی عقیدے کی بنیاد تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار سال قبل ایران میں رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ مذہب پھیلتا ہوا قدیم بھارت تک بھی پہنچ گیا تھا، جہاں آج بھی پارسیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہی مذہب تقریباﹰ ایک ہزار سال تک قدیم ایرانی سلطنت کا سرکاری مذہب بھی تھا۔
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mayama
11 تصاویر1 | 11
اس کے بعد ایران ہی میں آخری زرتشتی بادشاہ کے 650ء میں ہونے والے قتل اور پھر ایک مذہب کے طور پر اسلام کے پھیلنے کے باعث بہت طویل عرصے کے لیے اس عقیدے کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کی صدیوں میں کئی طرح کے جبر کا سامنا کرنے والا یہ مذہب باقی تو رہا لیکن پارسیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا۔
جدید دور خاص کر مغربی دنیا میں زرتشتی عقیدے کی حامل مشہور ترین شخصیت برطانوی موسیقار اور 70ء کی دہائی میں عالمگیر شہرت حاصل کرنے والے روک گلوکار فریڈی مرکری تھے، جن کا تعلق ایک ایسے پارسی خاندان سے تھا، جو آبائی طور پر مغربی بھارت کی ریاست گجرات سے تعلق رکھتا تھا۔
صدام دور میں پارسیوں کی حالت
عراق میں سابق صدر صدام حسین کے دور میں مذہبی اقلیتیں کس طرح کے حالات کا سامنا کرنے پر مجبور تھیں اور خاص طور پر زرتشتیوں کو اپنے عقیدے کے باعث کیا کچھ کرنا پڑتا تھا، اس بارے میں عراقی کردستان کی علاقائی حکومت میں مذہبی امور کی وزارت میں زرتشتیت کی نمائندگی کرنے والے اوات طیب کہتے ہیں، ''صدام حسین کے دور میں میرے والد پارسی عقیدے پر عمل تو کرتے تھے لیکن انہوں نے اس بات کو حکومت، ہمارے ہمسایوں حتیٰ کہ تمام رشتے داروں تک سے بھی چھپا کر رکھا ہوا تھا۔‘‘
کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Sanderson
11 تصاویر1 | 11
عراقی کردوں کی اکثریت تاحال مسلمان
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عراقی کردستان میں عام لوگوں کی اکثریت کا مذہب آج بھی اسلام ہے جبکہ اس بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ کرد نسل کی آبادی میں پارسیوں کا تناسب کتنا ہے۔
عراقی کردستان میں پارسی عقیدے کی ترویج کا کام کرنے والی ایک تنظیم 'یسنا‘ کے سربراہ آزاد سعید محمد کہتے ہیں کہ کردوں کو بھی مشرق وسطیٰ میں دیگر اقوام کی طرح اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو 'جارحیت پسند حملہ آوروں‘ سے بچا سکیں۔
آزاد سعید محمد نے کہا، ''ہمیں اپنے قدیمی مذہب کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی قومی شناخت کے احیاء کو بھی یقینی بنا سکیں اور خود کو ایک قوم کے طور پر متحد رکھتے ہوئے مضبوط بھی بنا سکیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق عراقی کردوں میں عقیدے اور قومی شناخت کا آپس میں اس طرح رچ بس جانا بھی ایک بڑی اور اہم وجہ ہے کہ بہت سے عراقی کرد مسلمان اب دوبارہ زرتشتیت کا رخ کرنے لگے ہیں۔
م م / ع ب (اے ایف پی)
نوروز کا تہوار، ایک صدیوں پرانی روایت
دنیا کے تقریبا 30 کروڑ انسان یہ تہوار مناتے ہیں۔ اس روایت کا تعلق صدیوں پرانے زرتشتی مذہب سے ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
رنگا رنگ تقریب
دنیا کے تقریبا 30 کروڑ انسان یہ تہوار مناتے ہیں۔ اس روایت کا تعلق صدیوں پرانے زرتشتی مذہب سے ہے۔ آج بھی یہ تہوار ایران، افغانستان، تاجکستان، آذر بائیجان، ترکی، چین اور عراق کے کچھ علاقوں میں منایا جاتا ہے۔
تصویر: Irna
موسم بہار کا آغاز
نوروز قدیم ایران میں نہ صرف نئے سال بلکہ بہار کا بھی آغاز ہوتا تھا۔ رواں برس کئی ملکوں میں یہ تہوار 20 مارچ کو منایا گیا۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اہتمام کردہ ایک تقریب کا منظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رسم و رواج
کئی ہفتے پہلے ہی اس جشن کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ مختلف ممالک میں اسے منانے کے انداز بھی مختلف ہیں۔
تصویر: MEHR
سات سین
اس روز ’س‘ سے شروع ہونے والے سات کھانے میز پر سجائے جاتے ہیں۔ میز کو عام طور پر ہاتھ سے بنُے کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کے عکس کی علامت کے طور پر ایک آئینہ بھی ساتھ رکھا جاتا ہے۔
تصویر: FARS
روایتی کھانا
اس روز ایک روایتی کھانا بھی پکایا جاتا ہے، جو مچھلی، چاول، خراسانی اجوائن اور پیاز سے تیار کیا جاتا ہے۔
تصویر: MEHR
نئے سال کی چھلانگ
جرمنی میں ایرانی نوجوان نئے ایرانی سال کا آغاز آگ کے ایک الاؤ کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہوئے کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ پرانی چیزوں کو چھوڑتے ہوئے نئے سال کا آغاز کیا جائے۔
تصویر: Mohamad Mohamadi
صفائی
اس تہوار سے پہلے گھر کی اچھے طریقے سے صفائی کی جاتی ہے۔ طویل موسم سرما کے بعد قالین دھوپ اور کھلی ہوا میں رکھ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: MEHR
گیت اور رقص
تاجکستان میں نوروز کے دن خاص رقص کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت دوشنبے کے اسٹیڈیم میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور خواتین رقص کرتی ہیں۔
تصویر: Aida Azarnoush
کردوں کا نیا سال
ترکی میں مقیم کرد بھی یہ تہوار بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر کوئی نئے کپڑے پہنتا ہے۔ ایک دوسرے کو کھانے کی دعوتوں پر بلایا جاتا ہے جبکہ بچوں کو نقد رقوم اور مٹھائیاں دی جاتی ہیں۔