عراقی ہسپتال کے کورونا وارڈ ميں آتش زدگی، درجنوں ہلاک
13 جولائی 2021
عراق کے شہر ناصریہ کے ایک ہسپتال میں کووڈ انيس کے مریضوں کے لیے مختص یونٹ میں آگ لگنے سے کم از کم 52 افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران ہسپتال میں آگ لگنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
اشتہار
عراق میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر ناصریہ کے ایک ہسپتال میں بارہ جولائی پیر کی رات آگ لگنے کا واقعہ پیش آيا جس میں پچاس سے بھی زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام نے اب تک 52 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور ان کے مطابق زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ اسی لیے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اس واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں ان میں ناصریہ کے الحسین ہسپتال کی عمارت کو آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ عمارت کی چھت کے اوپر سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ اطلاعات ہيں کہ آگ بھجانے والے عملے نے آگ پر قابو پا لیا ہے۔
آگ کیسے لگی؟
عراقی محکمہ صحت سے وابستہ ایک سینئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وارڈ میں ایک آکسیجن سلينڈر کا پھٹنا، آگ لگنے کی وجہ بنا۔ اس وارڈ میں تقریباً 70 بستر تھے اور تین ماہ قبل ہی اسے قائم کیا گیا تھا۔
اشتہار
مقامی محکمہ صحت کے ایک ترجمان حیدر الذمیلی کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں جو وارڈ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے مخصوص تھا اس میں بھیانک آگ لگ گئی جس کی وجہ سے اب تک 52 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جبکہ دیگر 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا بیشتر متاثرین کی موت آگ سے جھلس جانے کی وجہ سے ہوئی۔ بعض افراد عمارت کے کسی کونے میں اب بھی کہیں پھنسے ہو سکتے ہیں اور اس لیے تلاش جاری ہے۔
عراقی وزارت داخلہ نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ہسپتال کے برابر میں کورونا کے مریضوں کے لیے جو علیحدہ یونٹ کھڑا کیا گیا تھا، وہ آگ سے مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔
عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے آگ لگنے کے واقعے کے فوری بعد کابینہ کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس واقعے پر تبادلہ خیال کیا گيا۔ سوشل میڈیا پر آنے والے رد عمل سے عیاں ہے کہ عراقی عوام اس واقعے سے کافی برہم ہيں اور ذمہ دار افسران کے استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہسپتال کے باہر ایک نوجوان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ''بدعنوانی میں ملوث عہدیداروں کو آگ لگنے اور بے گناہ مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ آخر میرے والد کی لاش کہاں ہے؟‘‘
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
9 تصاویر1 | 9
ہسپتال میں آگ کا دوسرا بڑا واقعہ
عراق ميں ہسپتالوں میں آگ لگنے کا اس برس کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اپریل میں دارالحکومت بغداد کے ابن الخطیب ہسپتال میں آگ لگ گئی تھی، جس میں 82 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی ایک آکسیجن ٹینک کے پھٹنے سے آگ لگی تھی۔
عراق میں پھیلی بدعنوانی، پابندیاں اور مدت سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کا نظام صحت بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور ایک طرح سے ناکارہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف جہاں ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے وہیں کئی بار اس لیے بھی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتے ہیں کیونکہ خراب صورت حال کے سبب ڈاکٹر دوسرے ممالک میں کام کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
حالیہ کچھ دنوں کے دوران ملک میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس وقت یومیہ تقریباً نو ہزار نئے کیسز درج کیے جا رہے ہیں۔ عراق اس وقت بجلی کے بھی شدید بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ملک میں آئے دن بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔