1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: اسلامک اسٹیٹ کے جنگجُو شمال میں قوت پکڑتے ہوئے

عابد حسین5 اگست 2014

شمالی عراق میں انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے مختلف شہروں پر قبضہ جمانے کے بعد اب شمالی علاقے کے مزید علاقوں پر چڑھائی کا عمل شروع کر دیا ہے اور موصل ڈیم اور قریبی شہر وانا پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

Propagandabild IS-Kämpfer
تصویر: picture-alliance/abaca

انتہا پسند سنی عسکریت پسندوں کی نئی کارروائیوں کے تناظر میں عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے ملکی ایئر فورس کو حکم دیا ہے کہ وہ انتہا پسند اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ برسرپیکار کرد فورسز کی مدد کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنائے۔ امریکا کی تربیت یافتہ عراقی فوج اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے سامنے کسی بڑی مزاحمت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اب کردوں کی خصوصی گوریلا فورس پیش مرگا سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سنی عسکریت پسندوں کی پيش قدمی کو روکنے میں کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھائے۔

عراقی فوج کے ترجمان قاسم عطا کا کہنا ہے کہ فوج کی جنرل کمان نے فضائیہ کو حکم جاری کر دیا ہے کہ وہ کرد فوج کی مدد و معاونت کے لیے چوکس رہے تاکہ کسی بھی درخواست پر اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کو فوری طور پر نشانہ بنانے کے سلسلے کو شروع کیا جا سکے۔ مبصرین کے مطابق ماضی میں نوری المالکی کرد خود مختار علاقے کی سیاسی قیادت سے نالاں تھے اور اب اُس ناراضی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سنی عسکریت پسندوں کی پیشقدمی روکنے کے لیے کردوں کی فضائی مدد کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

دو روز قبل کرد فوج کو سنی عسکریت پسندوں سے بڑی شکست کھانا پڑی تھی۔ اسلامک اسٹیٹ کے لشکریوں نے مُوصل ڈیم اور اِس کے قُرب میں واقع اہم شہر وانا پر قبضہ کرنے کے علاوہ سنجر نامی کرد قصبے پر بھی غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ مُوصل ڈیم عراق کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ ایک آئل فیلڈ بھی سنی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ یہ پانچويں آئل فیلڈ ہے جو سنی عسکریت پسندوں کے قبضے میں آئی ہے اور امکاناً وہ اِن تیل کے کنووں سے خام تیل کو فروخت کر کے اپنی عسکری کارروائیوں کو تقویت دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب کرد گوریلا تنظیم پیش مرگا کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اُس کی جوابی کارروائی سے مُوصل ڈیم کے علاقے سے سنی عسکریت پسندوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ اب ڈیم کا انتظام و انصرام اِس وقت پیش مرگا کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس بیان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ یہ ضرور طے ہے کہ ابھی تک کرد فوج کی جانب سے مؤثر جوابی کارروائی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اِس دوران ایک اعلیٰ کرد اہلکار نے امریکا سے اپیل کی ہے کہ وہ انہیں اسلحہ فراہم کرے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سلسلہ بھرپور انداز میں شروع کیا جا سکے۔ اِس درخواست میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کی فراہمی شامل ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں