عراق: امریکا کی ’اسپیشل آپریشنز فورس‘ کی تعیناتی کا فیصلہ
2 دسمبر 2015امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا کہنا تھا کہ ’’خصوصی اہداف کو نشانہ بنانے والی اس فورس‘‘ کی تعیناتی کا فیصلہ عراق حکومت کے ساتھ مشاورت سے کیا گیا ہے اور یہ امریکی فورسز عراقی فوجیوں اور کرد پیش مرگہ فورسز کو مدد فراہم کریں گی۔ ان خصوصی فوجی دستوں کا مقصد عراق اور شام میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرنا بتایا گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان کے خصوصی دستوں کا کام ’’منظم چھاپے مارنا، مغویوں کو رہا کروانا، خفیہ معلومات جمع کرنا اور داعش کے رہنماؤں کو پکڑنا ہو گا۔‘‘
امریکی وزیر دفاع کا امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ فورس منظم طور پر شام میں بھی کارروائیاں کرنے کے قابل ہو گی۔‘‘
عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق غیرملکی امداد کا خیرمقدم کیا جائے گا کسی بھی اسپیشل فورس کی تعیناتی سے پہلے عراقی حکومت کی منظوری ضروری ہے، تاہم امریکی وزیر دفاع بھی اس سے متفق ہیں۔ العبادی نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں غیرملکی زمینی افواج کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ وہ ’اسپیشل آپریشنز فورسز‘ کو کس کردار میں دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب عراقی کی ایک طاقتور شیعہ تنظیم ’کتائب حزب اللہ‘ نے کہا ہے کہ تعینات ہونے والی کسی بھی امریکی فورس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس گروپ کے ترجمان جعفر حسینی کا کہنا تھا، ’’اس طرح کی امریکی فورسز ہمارا بنیادی ہدف ہوں گی۔ ہم نے اس سے پہلے بھی ان کے خلاف لڑائی کی تھی اور ہم دوبارہ یہ لڑائی شروع کرنے پر تیار ہیں۔‘‘
ایک امریکی عہدیدار کا نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ عراق میں اسپیشل فورسز یونٹ کی تعیناتی کے بارے میں بغداد حکومت سے تفصیلی بات چیت ہو چکی ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ عراق کی رضامندی کے بعد ہی امریکی وزیر دفاع نے یہ اعلان کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ عراقی حکومت کے ساتھ ایسی مزید منصوبہ جاری ہے کہ ان ’محدود فورسز‘ کی تعیناتی کس مقام پر کی جائے گی اور ان کو سردست کون سے خصوصی اہداف دیے جائیں گے۔
امریکی حکومت کے اس فیصلے کے ساتھ ہی عراق اور شام میں امریکی افواج کا دائرہ کار مزید وسیع ہو گیا ہے۔