بغداد میں اس فضائی اڈے پر راکٹوں سے پھر حملہ کیا گیا ہے جہاں امریکی فوجی مقیم ہیں۔ اس میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اشتہار
عراق میں فوج سے متعلق میڈیا سینٹر کا کہنا ہے کہ جس فضائی اڈے پر امریکی فوجی مقیم ہیں اس کو 18 اپریل اتوار کے روز متعدد راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا جس میں دو بیرونی کانٹریکٹر اور تین عراقی فوجی زخمی ہو گئے۔
عراق میں سکیورٹی کے ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ شمالی بغداد کی بلاد ایئر بیس پر پانچ راکٹ گرے جس میں دو فوجی اڈے کے رہائشی علاقے میں گرے جبکہ ایک راکٹ امریکی کمپنی 'سیلی پورٹ' کی کینٹین میں گرا۔ اس ذرائع کے مطابق اس حملے میں دو بیرونی کانٹریکٹر اور تین عراقی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
بغداد ایئر بیس کے کمانڈر میجر جنرل دیعا محسن نے عراق کی سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے سکیورٹی فورسز میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حملے سے فضائی اڈے کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ہے۔
ابھی تک اس حملے کی ذمہ دار بھی کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی ہے۔
امریکی ٹھکانوں پر حملوں میں اضافہ
عراق کے اس فضائی اڈے پر امریکی ساخت کے ایف 16 جنگی طیارے تعینات ہیں جبکہ اس کے علاوہ مرمت کا کامکرنے والی متعدد دیگر کمپنیاں بھی وہاں موجود ہیں جن کے بڑی تعداد میں عراقی اور بیرونی ملازم بھی وہیں رہتے ہیں۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
9 تصاویر1 | 9
حالیہ مہینوں میں بغداد کے محفوظ ترین علاقے 'گرین زون' کو متعدد بار پر ایسے حملوں سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اسی علاقے میں امریکی سفارت خانہ اور امریکی فوجی بھی رہتے ہیں۔ عموماً ان حملوں کے لیے ایران کے حمایت یافتہ گروپوں پر الزام عائد کیا جا تا رہا ہے۔
گزشتہ جنوری میں جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی انتظامیہ کی کمان سنبھالی ہے اس وقت سے اب تک امریکی فوجیوں کی میزبانی کرنے والی عسکری بیس سمیت امریکی تنصیبات پر بم یا راکٹ سے تقریباً بیس حملے کیے جا چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی 2019 میں اسی طرح کے درجنوں حملے ہوئے تھے۔
عراق میں سرگرم ایرانی حمایت یافتہ بہت سے ایسے گروپ عراق سے امریکی فوجیوں کا اسی طرز پر انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جیسا کا امریکا نے افغانستان میں اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یا تو امریکا،عراق کو چھوڑ دے یا پھر ایسے حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔
اتحادی افواج کو رسد پہنچانے والے قافلوں پر بھی جنوبی عراق میں ایسے حملوں کا تقریبا ًہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکا نے گزشتہ ہفتے عراق سے بھی فوجی انخلا کی بات کہی تھی تاہم اس نے اس سلسلے میں ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے۔