1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

عراق: ایئر بیس پر حملے میں متعدد امریکی فوجی زخمی

6 اگست 2024

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عراق میں ایک فوجی اڈے پر ہونے والے حملے میں اس کے متعدد فوجی اہلکار زخمی ہو گئے۔ گزشتہ ہفتے عسکریت پسند گروپ حماس اور حزب اللہ کے سینیئر اراکین کی ہلاکت کے بعد سے خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

عراق میں امریکی فوجی
گزشتہ ہفتے امریکہ نے عراق میں ان افراد کے خلاف حملہ کیا تھا، جن کے بارے میں امریکی حکام کا خیال تھا کہ عسکریت پسند ڈرون سے حملے کی تیاری کر رہے ہیںتصویر: AP

امریکی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ پیر کے روز عراق میں ایک فوجی اڈے پر راکٹ سے ہونے والے حملے میں کم از کم پانچ امریکی اہلکار زخمی ہو گئے۔

عراق میں فوجی اڈے پر حملہ، ایران نواز مسلح گروہ نشانے پر

عراق کے دو سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ مغربی عراق میں الاسد ایئر بیس پر دو کاتیوشا راکٹ فائر کیے گئے۔ ایک عراقی سیکورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ راکٹ بیس کے اندر گرے۔

امریکہ نے عراق اور شام میں ایرانی اہداف پر حملے کے منصوبوں کو منظوری دی

گزشتہ ہفتے عسکریت پسند گروپ حماس اور حزب اللہ کے سرکردہ لیڈروں کی ہلاکت کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عراق میں یہ حملہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی جوابی کارروائی ہے یا نہیں۔

امریکہ نے شام اور عراق میں ایران سے جڑے اہداف پر حملے شروع کر دیے

امریکی حکام نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ زخمیوں میں سے ایک امریکی شدید طور پر زخمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ابتدائی اطلاعات پر مبنی ہے، جس میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے عراق میں بھی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر حملے

ایک دیگر امریکی اہلکار نے مزید کہا، ''فوجی اڈے کے اہلکار حملے کے بعد ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔''

شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملے

گزشتہ ہفتے امریکہ نے عراق میں ان افراد کے خلاف حملہ کیا تھا، جن کے بارے میں امریکی حکام کا خیال تھا کہ عسکریت پسند ڈرون سے حملے کی تیاری کر رہے ہیں اور وہ امریکی اور اتحادی افواج کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی عراق سے عملے کو نکالنے کے ساتھ ہی ملک کا سفر نہ کرنے کی ہدایت

تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا جواب دینے کے ایران نے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اس تناظر میں امریکہ نے خطے میں سکیورٹی میں اضافہ شروع کر دیا ہے۔

مشرقی شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اضافی جنگی طیارے اور بحریہ کے جنگی جہاز تعینات کر رہا ہے، کیونکہ واشنگٹن ایران اور اس کے اتحادی حماس اور حزب اللہ کی دھمکیوں کے بعد دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق میں موجود امریکی فوجیوں پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں، جس کا امریکہ بھی جواب دیتا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

خیال رہے کہ امریکہ، اسرائیل اور دیگر کئی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

عراق میں امریکی افواج

عراق امریکہ اور ایران دونوں کا اتحادی ہے، جہاں امریکہ کے تقریباً 2,500 فوجی موجود ہیں۔ دوسری جانب عراقی سکیورٹی فورسز سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا سے بھی روابط ہیں۔

گزشتہ اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق میں موجود امریکی فوجیوں پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں، جس کا امریکہ بھی جواب دیتا رہا ہے۔

بغداد کی خواہش کہ عراق میں موجود امریکہ کے زیر قیادت بیرونی ممالک کے فوجیوں کا ستمبر سے انخلاء شروع ہو جائے اور اسے ستمبر 2025 تک باضابطہ طور پر مکمل کر لیا جائے۔

عراقی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ جو نیا مشاورتی عمل ہوا ہے، اس کے تحت انخلا کے بعد کچھ امریکی فوجی صرف مشاورت کے لیے موجود ہوں گے۔

عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی نے اتوار کے روز ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بات چیت کی۔ ایک عراقی اہلکار نے بتایا کہ بلنکن نے عراقی وزیر اعظم سے کہا کہ وہ خطے میں کشیدہ حالات کو کم کرنے میں مدد کریں۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ عراق ایران کو اس بات پر قائل کرنے میں مدد کرے کہ تہران میں اسرائیلی حملے کے بارے میں ایران اپنے ردعمل کو کم کرے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ''ایرک'' کوریلا بھی اس وقت مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں۔ امریکی حکام میں سے ایک نے بتایا کہ کوریلا اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کر ر ہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایران کے خلاف حملے کی صورت میں ہم آہنگی موجود ہو۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار

03:15

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں