عراق: باغیوں کی پیشقدمی، ’قتل عام‘ کی تصاویر بھی جاری
16 جون 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراق سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام‘ نامی انتہا پسند جنگجو گروپ کے باغیوں نے اتوار کے دن بھی اپنی کاررائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ صوبہ نینوا اور صلاح الدین کے بیشتر علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ان سنی شدت پسندوں نے بغداد کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے نینوا کے ایک اور شہر ترکمان کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
شمال مشرقی شہر تلعفر کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ باغیوں اور ملکی فوج کے مابین خونریز لڑائی ہوئی، جس کے نتیجے میں بہت زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کے بقول اس لڑائی کے بعد باغی ترکمان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران مقامی شیعہ گھرانے مغربی جبکہ سنی کنبے شمالی علاقوں کی طرف فرار ہو گئے۔
عراقی حکام نے بتایا ہے کہ دارالحکومت کو محفوظ بنانے کے لیے اضافی اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں اور بغداد کی طرف باغیوں کی پیشقدمی میں بھی کچھ آہستگی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ علاقوں میں سنی باغیوں کو پسپا کیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے سنی باغی شام اور عراق میں قرون وسطیٰ کا اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے متعدد مقامی سنی جنگجو گروہ بھی ’اسلامک اسٹیٹ آّف عراق و شام‘ (آئی ایس آئی ایس) کے جنگجوؤں کے ساتھ مل گئے ہیں۔
دریں اثناء ان شدت پسندوں نے اتوار کے دن اپنی ویب سائٹ پر ایسی تصاویر جاری کی ہیں، جن میں سینکڑوں عراقی فوجیوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں آئی ایس آئی ایس کے کمانڈر عبدالرحمان البلاوی کی موت کا بدلہ تھیں۔ باغیوں کے بقول سترہ سو فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
عراقی فوج کے ترجمان لیفٹینینٹ جنرل قاسم الموسوی نے کہا ہے کہ صلاح الدین صوبے میں عراقی فوجیوں کے ’قتل عام‘ کی یہ تصاویر سچی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کم ازکم تین ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ تاہم غیر جانبدار ذارئع سے ان تصاویر کی سچائی کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ان تصاویر میں باغی سینکڑوں افراد کو ہلاک کرتے دِکھائے گئے ہیں۔
واشنگٹن حکومت نے اس مبینہ قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے عراقی عوام سے کہا ہے کہ وہ اس بڑے خطرے کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ تکریت شہر میں سنی انتہا پسندوں کی طرف سے ان ہلاکتوں کے دعوے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’دہشت گرد‘ کتنے خطرناک ہیں۔
ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ عراق میں اس انتہا پسندی کی تحریک کو کچلنے کے لیے واشنگٹن، بغداد حکومت کے ساتھ ہیں۔ عراق کے ہمسایہ شیعہ ملک ایران نے بھی کہا ہے کہ وہ عراق میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے بغداد میں تعینات اپنے سفارتی عملے کی سکیورٹٰی بڑھا دی ہے۔