عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کو راکٹوں سے ایک بار پھر نشانہ بنا یا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں امریکی فوجی اور سفارتی تنصیبات پر اس نوعیت کا یہ تیسرا حملہ ہے۔
اشتہار
عراق کے دارالحکومت بغداد میں عسکریت پسندوں نے پیر کے روز انتہائی سکیورٹی والے گرین زون علاقے میں کئی راکٹ فائر کیے۔ امریکا اور دیگر بیرونی ممالک کے سفارت خانے بغداد کے گرین زون علاقے میں ہی واقع ہیں۔
عراق میں گزشتہ چند ماہ کے قدر ے پرامن ماحول کے بعد حالیہ دنوں میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بیرونی ممالک کی فوجی، سفارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر حملوں کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
عراق کی سکیورٹی سروس کا کہنا ہے کہ کم از کم دو راکٹ گرین زون علاقے میں اس مقام کے آس پاس گرے جہاں امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے سفارت خانے واقع ہیں۔ ان حملوں میں کسی کے ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
عراقی سکیورٹی سروسز کے ایک سینیئر اہل کار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک راکٹ امریکی سفارت خانے کے پاس واقع 'نیشنل سکیورٹی سروس' کے ہیڈ کوراٹر پر آ کر گرا۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
9 تصاویر1 | 9
امریکی مذمت
واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ان حملوں کی مذمت کی۔گر چہ ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم امریکا نے بظاہر اس کے لیے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاء کو ذمہ ٹھہرا یا۔
نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ''ہم ان سرگرمیوں کے لیے ایران کو ذمہ دار مانتے ہیں کیونکہ اس کے در پردہ ساتھی امریکا کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ہم اس پر جوابی کارروائی کر کے کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایران کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگا جو عراق کو مزید غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور یہ اس میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔''
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
سلسلہ وار حملے
ایک ہفتے قبل ہی شمالی عراق کے اربیل میں ہوائی اڈے کے پاس واقع ایک عسکری عمارت کو ایک درجن سے بھی زیادہ راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس عمارت میں امریکا کی قیادت والے فوجی اتحاد میں شامل بیرونی ممالک کے فوجی قیام کرتے ہیں۔اس حملے میں ایک بیرونی کانٹریکٹر سمیت دو شہری ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
سنیچر کے روز شمالی بغداد کے البلاد فوجی ایئر بیس پر بھی ایک راکٹ آکر گرا تھا۔ عراق امریکا سے خریدے گئے اپنے ایف 16 جنگی طیارے اسی عسکری بیس پر رکھتا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس حملے میں ایک مقامی کانٹریکٹر زخمی ہوا تھا جسے ان جنگی طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے وہاں تعینات کیا گیا تھا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش میں ہے کہ آخر اس حملے کے پیچھے کس گروپ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔