1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: بڑھتے ہوئے تناؤ کے پس منظر میں صوبائی انتخابات

21 اپریل 2013

عراقی انتظامیہ نے امریکی انخلاء کے بعد ملک کے پہلے صوبائی انتخابات کے کامیاب انعقاد کو ہفتہ 20 اپریل کو ممکن بنایا، جس دوران کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

تصویر: Reuters

دو سُنی اکثریتی صوبوں نینوا اور انبار میں البتہ سلامتی کی ناگفتہ صورتحال کے سبب ووٹنگ نہیں ہوئی۔ بغداد حکومت نے گزشتہ ماہ غیر متوقع طور پر نینوا اور انبار میں سکیورٹی خدشات کے سبب ووٹنگ ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان دو صوبوں میں گزشتہ چار ہفتوں سے شدید حکومت مخالف مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حالیہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے جب عراق کی سُنی اقلیت اور شیعہ اکثریت کے مابین تناؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکی حملے کے بعد سے شیعہ اکثریت سیاسی حوالے سے بالادست پوزیشن پر ہے۔

فرقہ ورانہ کشیدگی

اس فرقہ ورانہ کشیدگی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بہت سے رائے دہندگان کو مذہبی رہنماوں نے ووٹ دینے کی ترغیب دی تھی۔ بغداد سے تعلق رکھنے والے ایک 60 سالہ سُنی شہری انور العبیدی نے کہا، ’’ مجھے حالات میں بہتری کی کوئی امید نہیں تاہم میں نے اس لیے ووٹ دیا کیونکہ مجھے ہمارے علماء نے ایسا کرنے کے لیے اس لیے کہا کہ تاکہ ہم ماضی کی طرح اس بار بھی پیچھے نہ رہ جائیں۔‘‘

عراق میں سال 2010ء کے عام انتخابات کی طرح اب کی بار بھی وزیر اعظم نوری المالکی کے شیعہ اکثریتی اتحاد دولة القانون کا مقابلہ سیکولر امیدوار ایاد العلاوی کے العراقیہ اتحاد سے ہے، جس کے کچھ سابقہ سُنی حامیوں نے اب آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔

الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق 50 فیصد اہل رائے دہندگان نے ووٹ دیا جوکہ 2009ء کے صوبائی انتخابات کے مساوی ٹرن آؤٹ ہے۔ انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ ان صوبائی انتخابات کے نتائج نا صرف سیاسی دھڑوں کو حاصل عوامی حمایت کی عکاسی کریں گے بلکہ اس کے اثرات اگلے برس کے عام انتخابات پر بھی پڑسکتے ہیں۔ قریب پچاس انتخابی اتحادوں کے ہزاروں امیدواروں کے درمیان ہفتے کے روز387 صوبائی نشستوں کے لیے مقابلہ تھا۔ جیتنے والے امیدوار ملک میں مقامی سطح پر تعمیراتی اور دیگر متعلقہ امور بابت فیصلہ سازی کریں گے۔

تصویر: picture-alliance/AP

سلامتی کو ممکن بنانے کے لیے خصوصی انتظامات

بغداد حکومت نے انتخابات کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی سکیورٹی انتظامات ترتیب دیے تھے۔ تمام بڑے شہروں اور شاہراہوں پر گاڑیاں چلانے کی ممانعت تھی۔ کچھ پولنگ اسٹیشنز کے پاس چھوٹے پیمانے کے بم حملوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تاہم کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں کیا گیا۔ ہفتے کے روز ملک بھر سے چھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں جو گزشتہ ہفتے کی خونریزی کے مقابلے میں خاصی بہتر صورتحال ہے۔ رواں ہفتے کے دوران بم دھماکوں میں قریب ایک سو عام شہری اور چودہ انتخابی امیدوار مارے جاچکے ہیں۔

اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے ایک عراقی شہر اودے محمد اپنی والدہ، اہلیہ، اور بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو میں اودے محمد نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نوری المالکی کے اتحاد دولة القانون کو ووٹ دیا۔ ان کے بقول 2003ء میں صدام دور کے خاتمے کے بعد اب لوگوں اور سیاست دانوں میں جمہوری شعور فروغ پا رہا ہے۔ ’’ سب کے سب سیاست دان بدعنوان نہیں، کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔‘‘

(sks/aba (AP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں