عراق بھر میں حملے، ہلاک شدگان کی تعداد 72 ہو گئی
14 جون 2012حکام کے مطابق شیعہ مسلمانوں کے مقدس مذہبی تہوار کے موقع پر ہوئے یہ حملے بظاہر باقاعدہ رابطہ کاری کے ساتھ کیے گئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر ہلاک ہونے والے افراد بھی شیعہ مسلمان بتائے جا رہے ہیں۔
عراق میں یہ تازہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب شیعہ مسلمان اپنے ایک امام، موسیٰ کاظم کا یوم وفات منا رہے ہیں۔ عراق میں پندرہ اگست 2011ء کے بعد یہ خونریز ترین حملے قرار دیے جا رہے ہیں۔ اُس وقت مجموعی طور پر 74 افراد مارے گئے تھے۔
واشنگٹن حکومت نے عراق میں ہوئے ان تازہ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جبکہ عراقی پارلیمان کے اسپیکر اسامہ نجفی نے اسے ’فرقہ واریت بھڑکانے‘ کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
عراقی حکام کے مطابق ان حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں بغداد میں ہوئیں۔ وہاں کل دس بم دھماکے ہوئے اور فائرنگ کے دو واقعات رپورٹ کیے گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں اٹھائیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔
بدھ کے دن دارالحکومت بغداد کے علاوہ دیگر کئی مقامات بھی ان دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں شدید متاثر ہوئے۔ حلہ میں بھی ایک ریستوان کے نزدیک دو بم دھماکے ہوئے، جس کے نتیجے میں کم از کم بیس افراد مارے گئے اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے۔
سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک عراق میں یہ تازہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نوری المالکی کے سیاسی مخالفین انہیں اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں میں ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اپوزیشن الزام عائد کرتی آ رہی ہے کہ نوری المالکی فیصلہ سازی میں ان کو ساتھ نہیں رکھتے اور آہستہ آہستہ ’آمریت‘ کی طرف سے بڑھ رہے ہیں۔
بدھ کو ہی وزیر اعظم نے حکومتی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ سیاسی سطح پر اختلاف رائے ملک کی سکیورٹی کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن سیاسی جماعت العراقیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی جو اقتدار پر براجمان ہیں وہی سکیورٹی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
(ab/sks (AFP)