عراق جنگ اور وکی لیکس، لاکھوں خفیہ دستاویزات ریلیز
26 نومبر 2010جولائی کے بعد سے وکی لیکس کی جانب سے ایک بار پھر خفیہ دستاویزات کے اجراء پر واشنگٹن حکومت کی پریشانی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ ان دستاویزات میں امریکی سفارتکاروں کی روسی سیاستدانوں سے بات چیت بھی شامل ہے۔ ان میں روس کے اہم اندرونی معاملات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
ایک روسی اخبار کے مطابق وکی لیکس کی طرف سے منظر عام پر لائی جانے والی تازہ دستاویزات سے واشنگٹن اور کریملن تعلقات میں امکانی طور پر سرد مہری پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان فلپ کراؤلی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان خفیہ رپورٹس کے انٹرنیٹ پر جاری ہونے کے بعد وہ انتہائی سنگین مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں اور مختلف ملکوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
وکی لیکس نے افغانستان کی جنگ کی خفیہ فائلوں کو انٹرنیٹ پر جاری کرنے کے بعد عراق جنگ سے متعلق بھی ہزاروں فائلوں کو عام کیا تھا۔ اب تک تقریباً چار لاکھ فائلیں شائع کی گئی ہیں۔
عراق میں امریکی سفیر کے نزدیک نئی فائلوں کی انٹرنیٹ پر اشاعت انتہائی پریشان کن اور حیران کن عمل ہے۔ بغداد متعینہ سفیر جیمز جیفری کے مطابق ان رپورٹوں کی اشاعت سے حالات میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں۔ جیفری کے مطابق اس کے بعد آنے والی رپورٹوں کے حوالے سے مزید پریشانی کا احساس پیدا ہو چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے جن ملکوں کو مختلف حوالوں سے الرٹ رہنے کو کہا گیا ہے، ان میں برطانیہ، ڈنمارک، اسرائیل، ناروے اور ترکی شامل ہیں۔ واشنگٹن حکومت نے انقرہ میں ترک حکومتی ذرائع کے ساتھ رابطہ استوار کر رکھا ہے۔ ترک اخبارت کے مطابق اس رپورٹ میں ایسا مواد بھی ہے، جس کے مطابق ترکی کی جانب سے عراق میں خود کش حملوں میں القاعدہ کی معاونت شامل ہے۔
اسی طرح ان میں سے ایک رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ امریکہ کی جانب سے عراق کے اُن کرد باغیوں کی حمایت کی جاتی ہے، جو ترکی میں متحرک ہیں۔ ایک امریکی اعلیٰ سرکاری افسر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان دستاویزات میں شامل مواد بہت خطرناک ہے، جو مختلف ممالک کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ کئی ملکوں کو امریکہ کی جانب سے خصوصی بریفنگ دی گئی ہے تاکہ وہ کسی بھی رد عمل سے اجتناب کریں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی